کتاب: محدث شمارہ 21 - صفحہ 11
روضۂ اقدس کی زیارت کی نیت سے حرمین کاسفر کیسا ہے؟ قبر کی زیارت اور سفر کے بارے میں وارد احادیث کا جائزہ شیخ حماد بن محمد انصاری (شنقیطی) عربی سے ترجمہ: پروفیسر مدینہ یونیورسٹی پروفیسر حافظ ثناء اللہ خاں (ایم اے) الحمد للہ ربّ العالمین والصّلٰوۃ والسّلام علٰی نبّینا مُحمّد واٰله وصحبه اجمعین وبعد مسئلہ: دو شخص اس بات پر جھگڑتے ہیں کہ کیا مسجد نبوی کے بغیر صرف روضۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے زیارت کی نیت سے سفر کرنا جائز ہے؟ اس کے لئے شرعی فتویٰ مطلوب ہے۔ جواب: شروع اسلام میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو قبروں کی زیارت سے روک رکھا تھا کیونکہ لوگ نئے نئے بت پرستی چھوڑ کر مسلمان ہوئے تھے لیکن بعد میں یہ حکم واپس لے لیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کنت نھیتکم عن زيارة القبور فزوروھا فانھا تذكركم الآخرة میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا لیکن اب اس کی اجازت اور ترغیب دیتا ہوں کیونکہ یہ تمہیں موت اور آخرت یاد دلاتی ہے۔ اس طرح مردوں کو تو اجازت دے دی گئی لیکن عورتوں کے لئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کی ممانعت باقی رہی جیسا کہ ابو داؤد اور ترمذی وغیرہ کی حدیث میں عبد اللہ بن عباس سے اس کی وضاحت موجود ہے: لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زائرات القبور (الحدیث) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ۔ [1]
[1] یہ حدیث ابو صالح تابعی (جو عبد اللہ بن عباس سے روایت کرتے ہیں) کی سند سے صحیح ہے۔ ابو صالح مذکور کے بارے میں بعض محدثین کا خیال ہے کہ یہ اُمّ ہافی کا آزاد کردہ غلام ’’باذام‘‘ ہے اور بعضوں کا خیال ہے کہ میزان بصری ہے۔ بہرحال دونوں صورتوں میں حدیث صحیح ہے۔ کیونکہ باذام سے راوی جس وقت محمد بن جحادہ ہو تو حدیث صحیح ہوتی ہے۔ برخلاف اس کے کہ کلبی جیسے لوگ اس سے روایت بیان کرتے ہیں اور یہ حدیث محمد بن جحادہ کی روایت سے ہے اور اگر یہ ابو صالح میزان بصری ہے پھر تو حدیث بالاتفاق صحیح ہے۔ ۱۲ منہ۔