کتاب: محدث شمارہ 21 - صفحہ 10
’’اللہ تعالیٰ کا رسول۔۔۔۔ اسلامی سماجی نظام کا پورا پورا تصور اپنے سامنے رکھ کر سوچتا ہے تو وہ حکمت کا تقاضا یہی پاتا ہے کہ عورتوں کو سیاست سے مستثنیٰ رکھا جائے۔ وہ پوری طرح سمجھ جاتا ہے کہ اگر گھروں کے اندر مرد عورتوں کے لئے قوّام ہیں تو ریاست کی مجموعی قوّامیت کے لئے بھی مرد ہی موزوں ہو سکتے ہیں ۔ خواتین نہیں ۔ ‘‘[1] ’’مجالس قانون ساز کی رکنیت کا حق عورتوں کو دینا مغربی قوموں کی اندھی نقّالی ہے۔ اسلام کے اصول اس کی ہرگز اجازت نہیں دیتے۔ اسلام میں سیاست اور انتظامیہ ملکی کی ذمہ داری صرف مردوں پر ڈالی گئی ہے۔‘‘ (دستوری تجاویز۔ مرکزی مکتبہ جماعتِ اسلامی ص ۶) 31 علماء کا متفقہ فیصلہ: جنوری 1951ء میں مختلف مکاتیبِ فکر کے 31 علماءِ کرام نے کراچی میں بیٹھ کر دستوری تجاویز اور ترامیم کا ایک متفقہ خاکہ مرتب فرمایا۔ اس میں لکھا ہے: ’’رئیسِ مملکت کا مسلمان مرد ہونا ضروری ہے۔‘‘ (متفقہ فیصلہ ص 5 شائع کردہ جماعت اسلامی) ان تصریحات سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی ہے کہ عورتوں کو سرکاری ملازمتوں میں نہ گھسیٹا جائے کیونکہ ان کے دوش ناتواں ان گرانباریوں کے متحمل نہیں ہیں ۔ صدقۃ الفطر صدقۃ الفطر ہر مسلمان چھوٹے بڑے، مرد عورت کے لئے عید کی نماز سے قبل دیندار محتاجوں کو ادا کرنا ضروری ہے تاکہ وہ بھی عید کی خوشی میں شریک ہو سکیں ۔ اس کی مقدار عمومی اجناس خوردنی سے وہ صاع حجازی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں رائج تھا۔ ہمارے مروجہ اوزان کے اعتبار سے اس کا پورا پورا حساب دو سیر دس چھٹانک تین تولے چار ماشے ہے۔ موٹے حساب سے پونے تین سیر ادا کرنا دینا بہتر ہے۔ اگر کوئی شخص گندم وغیرہ کی بجائے آج کے حساب سے پیسے دینا چاہے تو اس کی قیمت تقریباً ایک روپیہ دس آنے بنتی ہے۔
[1] ترجمان القرآن، جنوری 1953ء