کتاب: محدث شمارہ 20 - صفحہ 9
پر سمجھوتہ ہو گیا ہے۔ افہام و تفہیم سے مرکز اور صوبوں میں مخلوط حکومتیں قائم ہو سکیں گی۔ بر سرِ اقتدار جماعتیں کاروبارِ حکومت کے علاوہ سیاست میں بھی مل جل کر کام کریں گی۔ مفتی محمود نے مزید کہا کہ بر سرِ اقتدار جماعتوں میں دراصل اختلاف نہیں بلکہ محض عدم اعتماد کی فضا موجود ہے۔ (نوائے وقت)
بر سرِ اقتدار جماعتوں کا یہ وفاق اگر دیرپا ثابت ہو تو ہمیں یقین ہے، خوش آئند ثابت ہو گا۔ ہم چاہتے ہیں کہ بر سر اقتدار جماعتیں اس دائرہ کو اور وسعت دیں تاکہ دائیں بازو کی دوسری جماعتیں بھی مشترک اقدار میں کم از کم ایک دوسرے سے تعاون جاری رکھ سکیں ۔ ہرحال ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں بشرطیکہ یہ ’’دو ملاؤں میں مرغی حرام‘‘ ہونے والی بات پر منتج نہ ہو۔ جیسا کہ قوی اندیشہ ہے۔ کیونکہ تینوں کی راہیں اور دلچسپیاں جدا جدا ہیں ۔ پیپلز پارٹی کے سامنے اپنے اقتدار کو طول دینے کے سوا جماعتی حیثیت میں اور کوئی متعین منزل نہیں ہے۔ جمعیت کے سامنے منزل ہے لیکن حنفیت کے فروغ اور مرکز میں شرکت کی حد تک، رہی نیپ، سو اس کے پاس سوشلزم کی درانتی ہے۔ بہرحال درانتی کا کھیت کبھی بھی ہرا نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ اس اشتراک سے پیپلز پارٹی گھاٹے میں رہے گی۔ کیونکہ نیپ کے دونوں صوبوں میں پیپلز کی کھپت کے امکانات کم ہیں ۔ ہاں پنجاب اور سندھ میں ولی خاں کے پنپنے کے امکانات زیادہ ہیں ، گویا کہ یہ اشتراک پیپلز پارٹی کی موت کے پروانے پر دستخط ہیں ۔ ہاں اگر اس اشتراک کے ذریعہ دوسری جماعتوں کو دبانے یا شکار کرنے کا ذریعہ بنایا گیا تو ہو سکتا ہے کہ ان کو ذاتی فائدہ حال ہو لیکن مزعومہ جمہوریت پروان نہیں چڑھ سکے گی۔
(۵)
گرفتاریاں شروع ہو گئی ہیں ۔ کچھ رہنما گرفتار ہو گئے ہیں کچھ تیار بیٹھے ہیں ۔ غور فرمائیے۔ ایک جمہوری ملک کے آزاد شہریوں اور رہنماؤں کا اگر یہ تاثر اور احساس ہو کہ سدا تیار رہو تو وہ جمہوریت کیا ہوئی، جمہوریت کا واہمہ ہے۔
جو بھی پارٹی بر سرِ اقتدار آئی ہے اس نے اپنے تحفظ کے لئے مخالفوں کی ناکہ بندی کو ہی دوا تصور کیا ہے حالانکہ یہ دوا نہیں بد پرہیزی ہوتی ہے۔ اگر آپ کے پاس کوئی مثبت اور عوامی پروگرام ہے تو اس کی بسملّہ کیجئے! دیکھنے کے بعد عوام کسی کی ہوائی تقریروں کے بھرے میں آئیں ، نا ممکن ہے بلکہ مشاہدہ کے بعد عوام آپ کی طرف سے خود ہی دفاع کریں گے۔ گھبرائیں نہیں ۔ ہمت سے کام لیں ۔ اگر آپ مخلص