کتاب: محدث شمارہ 20 - صفحہ 8
پڑ جاتا ہے۔
جماعت اسلامی نے ولی خان کے سوشلزم کو قبول نہیں کیا۔ باقی رہی چپ؟ سو اس لئے کہ خان ولی خان کا سوشلزم ’’کفرِ عریاں ‘‘ ہے اس کے فریب میں آنا آسان نہیں ہے۔ قابلِ نفرین سوشلزم پیپلز پارٹی کا ہے۔ کیونکہ اس نے’’ مسزاندرا گاندھی‘‘ کے ساتھ ’’بتول‘‘ کا اضافہ کر کے اس کو مسلمان ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ ’’ہیئت کذائیہ‘‘ جب تک بدستور قائم ہے وہ بہرحال کافر ہی ہے اس کے ساتھ خالی لفظ ’اسلامی‘‘ کے اضافہ سے کوئی خاص فرق نہیں پڑ جاتا۔
(۲)
مرکزی وزیرِ قانون جناب محمود علی قصوری نے اپنی جماعت یعنی پیپلز پارٹی کے بارے میں کہا ہے کہ:
ان کی جماعت اسلام کی تبلیغ اور ملکی آئین کو اسلامی تعلیمات کی اساس پر مرتب کرنے میں کسی دوسرے سے پیچھے نہیں ہے تاہم انہوں نے کہا کہ حکومت اسلام کے نام پر استحصال کی اجازت نہیں دے گی۔ (نوائے وقت ۱۷/ اگست)
کیا ہم یہ پوچھ سکتے ہیں کہ مثلاً ’’سوشلزم‘‘ کے ساتھ لفظ ’اسلامی‘‘ کے اضافہ سے اسلام کا جو استحصال کیا گیا ہے کیا وہ بھی ’’اسلام کے نام پر استحصال‘‘ کے تحت آتا ہے؟
(۳)
بنگلہ دیش کا مسئلہ ہمارے نزدیک کوئی مسئلہ نہیں ۔ وہ پاکستان کا ایک حصہ ہے۔ ملک کے دونوں حصوں کے عوام کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے۔ یہ چند طالع آزماؤں کی بے تدبیریوں ، غداریوں اور خر مستیوں کا نتیجہ ہے۔ اگر سزا دینی ہے تو ان کو دیں ۔ عوام کو کاہے کی سزا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ہم سوچتے ہیں کہ اگر آپ بنگلہ دیش کو تسلیم نہیں کریں گے تو کونسا پہاڑ گر پڑے گا اور کونسی قیامت ٹوٹ پڑے گی؟ صدر بھٹو کو اگر کوئی خاص مجبوری ہے تو وہ بتائیں ، کیا ہے؟ تاکہ قوم اس سلسلہ میں آپ کی مدد کرے، اگر صرف فیاضی ہی مدّ نظر ہے تو آپ اپنی اس فیاضی پر اس کو بھی قیاس کر لیجئے، جس کا آپ نے شیخ مجیب کو چھوڑ کر مظاہرہ کیا تھا۔
(۴)
خبر آئی ہے کہ پیپلز پارٹی، نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیۃ علماءِ اسلام (ہزاروی) میں تعاون کے اصولوں