کتاب: محدث شمارہ 20 - صفحہ 7
جائزے (۱) مرکزی وزیرِ اطلاعات و نشریات جناب کوثر نیازی نے راولپنڈی میں ایک جلسۂ عام میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: حزبِ اختلاف ہمیشہ اپنے جلسے جلوسوں میں صدر بھٹو اور ان کے خاندان کے بارے میں نا زیبا الفاظ استعمال کرتی ہے نیز کہا کہ خاں ولی خان نے کچھ عرصہ قبل پیپلز پارٹی کو چیلنج کیا تھا کہ صدر بھٹو اور ان کا کوئی ساتھی پشاور میں داخل ہو کر جلسۂ عام میں تقریر نہیں کر سکتا لیکن پیپلز پارٹی نے ان کا یہ چیلنج قبول کرتے ہوئے گزشتہ روز پشاور میں ایک جلسۂ عام کا اہتمام کیا جس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی، انہوں نے جماعتِ اسلامی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ: جب صدر بھٹو اسلامی سوشلزم کا نام لیتے ہیں تو جماعتِ اسلامی ان کے خلاف کفر کے فتوے جاری کر دیتی ہے لیکن اس کے برعکس جب خان ولی خان ملک میں روسی سوشلزم لانے کی حمایت کرتے ہیں تو جماعتِ اسلامی خاموشی اختیار کر لیتی ہے۔ (روزنامہ امروز ۱۶ء اگست) صدر بھٹو تو بہرحال ایک صدرِ مملکت ہیں ، نازیبا الفاظ تو ایک ادنیٰ انسان کے بارے میں بھی بولنا جائز نہیں ہے۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ نازیبا الفاظ کا دروازہ کس نے کھولا ہے۔ اگر موصوف صرف اپنے ہفت روزہ شہاب کی حیا سوز تخلیقات کا مطالعہ فرما لیں تو شاید ’’فقیہِ شہر کو اپنے وعظ شریف‘‘ کا جواب آسانی سے مل جائے۔ حزبِ اختلاف میں سے اگر کسی نے کوئی نازیبا لفظ کہا ہے تو وہ لفظ، لفظ ہی تو ہے پیپلز پارٹی نے تو غنڈہ اور سماج دشمن عناصر کے بھیس میں ’’مجسم گالیاں ‘‘ اُگل ڈالی ہیں اس کی بھی آپ کو فکر چاہئے تھی۔ باقی رہا خان ولی خان کا چیلنج اور پیپلز پارٹی کا اس کو قبول کر کے پشاور میں جلسہ کر آنا، ہو سکتا ہے، موصوف کا یہ کوئی کارنامہ ہو تاہم یہ طنز و تعریض کچھ سنجیدہ لوگوں کی زبان ہیں سمجھی جاتی، اور نہ ہی یہ کچھ سیاسی فہم کی کوئی اچھی مثال ہے یہ تو ’’آبیل مجھے مار‘‘ والی بات ہے گویا کہ انہوں نے ان کو للکارا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ باتیں اچھی نہیں ہیں ۔ اس سے ملک کی فضا خراب ہوتی ہے۔ امن عامہ میں خلل