کتاب: محدث شمارہ 20 - صفحہ 5
ہوئے کہا کہ:
لَئِنْ لَّمْ تَنْتَهِ لَاَرْجُمَنَّكَ (مريم۔ ع۳)
’’اگر تو باز نہ آيا تو ميں تجھے سنگسار كر كے چھوڑوں گا۔‘‘
بالآخر جب حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے ان کا معبد خانہ مسمار کر ڈالا تو سرکاری حکم ہوا کہ بہت بڑا آتشکدہ تیار کر کے ان کو اس میں ڈال دیا جائے۔
اِبْنُوْا لَه بُنْيَانًا فَاَلْقُوْهُ فِي الْجَحِيْمِ (پ۲۳۔ سوره الصّٰفّٰت ع ۳)
(لگے کہنے کہ) ’’ان كے لئے بھٹی بناؤ اور ان کو دہکتی ہوئی آگ میں ڈال دو۔‘‘
جیسا کہ مشہور ہے کہ یہ نار گلزار ہو گئی، لیکن ان کا خود اپنا کیا حشر ہوا؟ مفسرین نے لکھا ہے کہ:
حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہجرت کے بعد اربابِ اقتدار کے سارے خاندان پر عذابِ الٰہی کا ایک غیر مختتم سلسلہ شروع ہوا۔ پہلے عیلامیوں نے ’’اُر‘‘ جیسے عظیم شہر کو تہ و بالا کیا، پھر نمرود کو ان کے بت ’’ننّار‘‘ سمیت پکڑ کر لے گئے اور اُر کا پرا علاقہ عیلامیوں کی غلامی میں جینے پر مجبور ہو گیا۔ جس کی وجہ سے باشندوں کے نظریات بھی بدل گئے اور وہ سمجھے جن کو سبھی کچھ سمجھتے تھے وہ تو خود کو بھی نہ بچا سکے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار
حضرت کلیم اللہ علیہ الصلوۃ والسلام کا جب ظہور ہوا تو دنیا کی حکومت فرعون کے پاس تھی، سرمایہ، قارون کی جیب اور رورحانیت، شعبدہ بازوں کی پاری میں ۔ جب ان کو محسوس ہوا کہ کسی عہد آفریں پیشوا کا ظہور ہونے کو ہے تو حکم ہوا کہ غلام قوم (بنی اسرائیل) کی بچیاں ضیافتِ طبع کے لئے رہنے دی جائیں لیکن لڑکوں کو چلتا کیا جائے۔ مگر خدا کے سامنے حکمرانوں کی تدبیروں کی پیش نہیں جاتی۔ آنے والا آیا، پر حکم ہوا، پکڑو پکڑو! لیکن وہ مدین جا پہنچے۔ وحی نے حکم دیا کہ جناب! اب ادھر پلٹ جاؤ جدھر سے آئے تھے، ان کو جا کر سمجھاؤ، تشریف لے گئے، پر وہ اور اکڑے اور بولے۔ یہ مجرم لوگ ہیں ، دھمکیاں دیتے ہوئے جیل خانہ کی بات کہی۔ جب اس سے کام نہ چلا تو احسان جتایا۔ یہ بات بھی کارگر نہ ہوئی تو الزام لایا کہ دراصل یہ کرسی کے بھوکے ہیں ، مذاق اُڑایا۔ جب بات نہ بنی و اعلان کیا کہ ’’تخریب کار‘‘ ہیں الغرض اتمامِ حجت کے بعد اپنی قوم کو لے کر چل پڑے۔ فرعون نے تعاقب کیا۔ پر اللہ تعالیٰ نے ان کو وہیں دھر لیا۔
فَلَمَّآ اٰسَفُوْنَا انْتَقَمْنَا مِنْھُمْ فَاَغْرَقْنٰھُمْ اَجْمَعِيْنَ. فَجَعَلْنٰھُمْ