کتاب: محدث شمارہ 20 - صفحہ 4
کہہ رہا ہے۔ کفر بے آمیز تو اب بھی جھولی بھر کر دستیاب ہوتا ہے اور قدم قدم پر ہوتا ہے لیکن ایمان بے داغ کا بڑا قحط پڑ گیا ہے۔ فرق صرف طریقِ کار میں پیدا ہوا ہے، کفر کی کافری میں سرِ مو فرق نہیں پڑا۔ یہاں پر خلیل اللّٰہی کی داستانِ خلّت کی پوری تاریخ کا تذکار ممکن نہیں ، اس سلسلہ کی چند ایک باتیں پیش خدمت ہیں ۔ شاید عہدِ حاضر کے بت تراش، بت فروش اور بت پرستوں کو اپنی لن ترانیوں کا جائزہ لینے کی توفیق حاصل ہو سکے۔ عراق کے نمرود اور پوری قوم، خدا سے جتنی دور تھی، اتنی ہی بتوں اور اپنے لیڈروں سے قریب تر تھی۔ اپنے ہاتھ سے بت تراش کر اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتی اور کچھ افراد کو اپنے اوپر خود مسلط کرتی اور پھر دم بخود ہو کر ان کی جی حضوری کو اپنے لئے سعادت تصور کر لیتی تھی، بالکل جیس ہم ووٹ دے کر کسی کو مسلط کر لیتے ہیں ، یہ بھی گھڑنا ہی ہے۔ اِنَّمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ اَوْثَانًا وَّتَخْلُقُوْنَ اِفْكًا (عنكبوت۔ ع ۲) ’’تم تو بس خدا كے سوا بتوں کی پرستش کرتے ہو اور جھوٹ موٹ گھڑتے ہو۔‘‘ دوسرا بنیادی نقص ان میں یہ تھا کہ ان کا قرآن، ان کے آباؤ اجداد کا تعامل تھا اور ان کے جمہور کی رسومات ان کی سنت تھیں ۔ قَالُوْا بَلْ وَجَدْنَآ اٰبَآءَنَا كَذٰلِكَ يَفْعَلُوْنَ (پ ۱۹۔ سوره شعراء۔ ع ۵) ’’وه بولے یہ تو نہیں مگر ہم نے اپنے بڑوں کو ایسا کرتے دیکھا ہے۔‘‘ اور جو کچھ یہ ہو رہا تھا محض ایک دوسرے کی رو رعایت کی بنا پر ہو رہا تھا۔ ضمیر اور عقلی ہوش یا ایمان کا تقاضا نہیں تھا۔ وَقَالَ اِنَّمَا اتَّخَدْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللهِ اَوْثَانًا مَّوَدَّةً بَيْنَكُمْ فِيْ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا (پ ۲۰۔ سوره عنكبوت ع ۳) ’’حضرت ابراہيم عليہ السلام نے فرمایا کہ تم جو خدا کے سوا بتوں کو مانتے ہو (تو) دنیوی زندگی کی باہمی دوستی و یاری کے لحاظ سے (مانتے ہو)‘‘ ان حالات میں جب حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کو ٹوکنا شروع کیا تو باپ نے جو اس وقت حکومت میں بہت بڑے منصب پر فائز تھا ازراہِ خوشامد حکومت کی طرف سے دفاع کرتے