کتاب: محدث شمارہ 20 - صفحہ 39
وسائل ہوتے ہیں وہ بھی قانوناً ممنوع ہوتے ہیں ۔ پردہ اور غضِ بصر کو اسلامی نقطہ نظر سے رضاکارانہ چیز کہنا، فاضل کالم نویس کی بے خبری کی دلیل ہے۔ موصوف کو شاید معلوم نہیں کہ اسلام کیا ہے اور رضا کارانہ کا مفہوم کیا ہے؟ اسلام میں بلکہ ہر ملکی آئین اور قانون میں اس امر کو اساسی حیثیت حاصل ہے کہ: جو عوام اور دواعی انسانی معاشرہ کی طہارت اور عافیتوں کے لئے مضر ہوتے ہیں وہ فرد کی رضاکارانہ خواہش کے تابع نہیں ہوتے بلکہ ان کی ڈوریں قانون کی گرفت میں ہوتی ہیں ۔ اور ہونی چاہئیں ۔ اس سلسلہ میں بظاہر جو خلا ہمیں نظر آتا ہے وہ دراصل ’’طہارت اور قومی عافیتوں ‘‘ کے تصور میں اختلاف کا نتیجہ ہے یا ناہنجار اور عاقبت نا اندیش حکمرانوں کی سہل انگاری کا ورنہ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ مفاسد اور ان کے قریبی ذرائع دونوں رضا کارانہ چیزیں نہیں ہیں بلکہ یکساں حرام اور قانوناً ممنوع ہوتی ہیں ۔ قرآن و حدیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ رضا کارانہ چیزیں نہیں ہیں بلکہ ختی سے ان کی پابندی کا حکم دیا گیا ہے: یٰٓاَیَّھَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْھِنَّ مِنْ جَلَا بِيْبِھِنَّ (القراٰن) ’’اے پیغمبر! اپنی ازواج مطہرات، صاحبزاديوں اور دوسرے مسلمانوں کی خواتین کو حکم دیجئے! وہ اپنے اوپر چادریں ڈال لیا کریں ۔‘‘ اِذَا سَاَلْتُمُوْھُنَّ مَتَاعًا فَاسْئَلُوْھُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ (پ ۲۲) ’’جب تم ان سے كوئی چيز مانگو تو پس پردہ مانگا کرو۔ ‘‘ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی زوجہ مطہرہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو حکم دیا کہ: اِحْتَجِبِیْ مِنْهُ یعنی تم حضرت عبد بن زمعہ سے پردہ کیا کرو۔ حضور کے معروف نابینا صحابی حضرت عبد اللہ ام مکتوم رضی اللہ عنہ سے پردہ کے لئے اپنی ازواج مطہرہ کو حکم دیا تو وہ بولیں کہ وہ تو نابینا ہیں : فرمایا: اَفَعَمْیَا وَانِ اَنْتُمَا کیا تم بھی اندھیاں ہو؟ (مشکوٰۃ) خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے خواتین پردہ کیا کرتی تھیں ۔