کتاب: محدث شمارہ 20 - صفحہ 38
یہ ترجمہ کر کے وہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ اپنا نہیں ، کسی تیسرے کی بات کر رہے ہیں ۔ حالانکہ یہ ان کا اپنا نظریہ ہے۔ اصل ترجمہ یہ ہے ’’تو اہلِ نظر سے مخفی نہیں ہے۔‘‘ (جس میں خود امام موصوف بھی شامل ہیں ) کیا پردہ اور غضؔ بصر رضا کارانہ چیزیں ہیں ؟ معزز معاصر نوائے وقت کے کالم ’سرراہے‘ کے کالم نویس کا ایک فتویٰ نظر سے گزرا ہے جو کافی دلچسپ بھی ہے اور عبرت آموز بھی۔ ملاحظہ فرمائیں : ’’اصل میں معاملہ کچھ یوں ہے کہ نہ تو ابلہانِ مسجد نے یہ راز سمجھا نہ فرزندانِ تہذیب نے کہ بے پردگی اور بے حیائی دو مختلف چیزیں ہیں ایک جانب تو بے حیائی کو ہی بے پردگی سمجھ لیا گیا اور دوسری جانب بے پردگی کے معنی ہی بے حیائی کے لئے گئے ہیں ۔ اس لئے معاملہ الجھ گیا ہے۔ اسلام افراط و تفریط کا کسی معاملہ میں قائل نہیں ۔ پردہ اور غضِ بر رضا کارانہ چیزیں ہیں ۔ اختیار کی جائیں تو بہتر ورنہ محض چہرہ کھلا رکھنا یا نگاہ نیچی نہ رکھنا،اسلام میں قابلِ تعزیر جرم نہیں البتہ ان سے پیدا ہونے والے نتائج جو حدود اللہ کو توڑنے کا باعث ہوں قابلِ گرفت ہیں ۔‘‘ (نوائے وقت ۲۹ اگست ۷۲ء) محترم معاصر نے سلسلۂ گفتگو کے دوران جو ٹون اختیار کی ہے یا جو انداز بیان پسد کیا ہے وہ ایک مسلم یا کم از کم ایک مہذب اور شائستہ انسان سے کم ہی متوقع ہوتا ہے۔ ’’ابلہانِ مسجد‘‘ کہہ کر انہوں نے اسلاف اور علمائے حق کی جو توہین کی ہے وہ کم از کم نوائے وقت جیسے اسلام پسند ادارہ کے لئے مناسب نہیں تھا۔ باقی رہا ’’بے پردگی اور بے حیائی‘‘ کے مابین تلازم۔ سو اس میں مبالغہ سہی، تاہم بالکل بے اصل بھی نہیں ہے اور نہیں تو کم از کم ایک دوسرے کے لئے ’’سبب قریب‘‘ تو ضرور ہیں ۔ معاصر موصوف نے یہ بھی خوب کہی کہ ’’بے پردگی اور عدم غض بصر ’’تو قابلِ تعزیر نہیں ہیں ‘‘’ ہاں ان کے نتائجِ بد ضرور قابلِ گرفت ہیں ۔‘‘ گویا کہ شوربا تو ضرور حرام ہے لیکن گوشت بہرحال حلال ہے۔ چہ خوب! غالباً موصوف کو ’’اصولِ تعزیرات‘‘ کا بھی علم نہیں ہے ورنہ ایسی بات نہ کہتے۔ تمام ادیان اور تمام اقوامِ عالم میں یہ ایک مشترک اصولی قدر ہے کہ مفاسد اور قبیح تک پہنچنے کے قریب ترین جو ذرائع اور