کتاب: محدث شمارہ 20 - صفحہ 37
فاضل پھلواروی نے حضرت امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک کتاب ’’ابطال دعوت الاجماع علی تحریم مطلق السماع‘‘ کا ذِکر چھیڑ کر یہ تاثر دینے کی کوشش فرمائی ہے کہ حضرت الامام کے نزدیک سماع حرام نہیں ہے۔ ’’حرام نہیں ہے‘‘ کے یہ معنے پیدا کرنے کی سعی کی کہ جائز ہے اور یہ ثقافی احباب یہی چاہتے ہیں ۔ دراصل اس کتاب کے نام کو بھی انہوں نے ’’مغالطۂ ادبی‘‘ کے لئے ہی استعمال کیا ہے۔ ورنہ بات وہ نہیں ہے جس کو وہ نمایاں کرنا چاہتے ہیں ۔ امام موصوف نے ’’ثقافتی کرم فرماؤں ‘‘ کی طرح سماع کو ’’حلال طیب اور مزکی نہیں کہا بلکہ یہ بات سمجھائی ہے کہ سماع کی بعض بے ضرر استثنائی صورتیں بھی ہیں جن کی وجہ سے سب کو بالکل حرام کہنا احتیاط کے خلاف ہے، ہاں ان استثنائی صورتوں کے باوجود یہ سارا کھیل مشتبہ ضرور ہے اور جو مشتبہ امور ہوتے ہیں ان کے متعلق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ ارشاد ہے کہ: ’’ان کے نزدیک بھی نہ پھٹکو۔‘‘ محاکمہ کی اصل عبارت یہ ہے: واذا تقرر جمیع ما حررناہ من حجج الفریقین فلا یخفٰی علی الناظر ان محل النزاع اذا خرج عن دائرة الحرام لم يخرج عن دائرة الاشتباه والمومنون وقافون عند الشبھات كما صرح به الحديث الصحيح ومن تركھا فقد استبراء لعرضه ودينه ومن حام حول الحمي يوشك ان يوقع فيه الخ (نيل الاوطار ص ۸۷، ۸) خود پھلواروی صاحب کے الفاظ میں اس عبارت کا ترجمہ یہ ہے: ’’ہم نے دونوں فریقوں کے جو دلائل نقل کئے ہیں ان پر نظر رکھنے والا اس نتیجے پر پہنچے گا کہ محل نزاع (گانا، بجانا) اگر حرام کے دائرے سے باہر ہو جائے تو اشتباہ کے دائرے سے باہر نہیں جاتا اور اہل ایمان شبہات کے موقع پر رُک جاتے ہیں جیسا کہ حدیث صحیح میں آیا ہے کہ من ترکھا الخ (یعنی جو مشتبہات کو ترک کر دے وہ اپنی آبرو اور اپنے دین کو بچا لیتا ہے اور جو ممنوعہ علاقے کے گرد چکر لگاتا ہے اس کے لئے اس میں جا پڑنے کا قریبی امکان ہے۔‘‘ (المعارف جولائی ص ۴۰) فلا یخفی علی الناظر کا ترجمہ بھی اپنے مطلب کا کیا ہے، یعنی ان پر نظر رکھنے والا اس نتیجے پر پہنچے گا۔ (المعارف ص ۴۰)