کتاب: محدث شمارہ 20 - صفحہ 36
کا ٹھیکہ لے رکھا ہے) امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ کے مندرجہ بالا محاکمہ کے اثرات کو غلط کرنے کے لئے بالکل ایک نئی چال چلے ہیں یعنی امام موصوف کے اس تبصرہ اور محاکمہ کو جو سارے مضمون اور باب کے آخر میں درج ہے، بین السطور کر کے اس کی اہمیت کو غارت کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ امام صاحب رحمہ اللہ کے نام پر کچھ معصوم ذہنوں کو شکار کیا جا سکے۔ افسوس تو یہ ہے کہ پھلواروی صاحب نے مضمون کے شروع میں جو بات کہی ہے اس کے آخر میں ہی اس کو پی گئے ہیں ۔ شروع میں یہ بات کہی ہے کہ: ’’اس مضمون کو انہوں (یعنی امام شوکانی رحمہ اللہ ) نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب نیل الاوطار میں اسرار منتقی الاخبار کے جز ہفتم (جز ہشتم ہے جز ہفتم نہیں ہے، شاید کاتب سے سہو ہو گیا ہو) میں بھی دہرایا ہے جو پوری کتاب کا صرف ایک باب ہے یعنی ’’باب ما جاء فی آلۃ اللہو‘‘ بہر کیف ہم اس باب کا ترجمہ ہدیہ ناظرین کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں ۔‘‘ (المعارف جولائی ۲۲۔۲۳) مندرجہ بالا سطور سے واضح ہوتا ہے کہ پھلواروی صاحب صرف ’’باب ما جاء فی آلۃ اللہو‘‘ کا ترجمہ پیش کریں گے مگر ان کو اس میں مشکل یہ پیش آگئی ہے کہ مضمون اور باب کے آخر میں حضرت امام شوکانی رحمہ اللہ کا جاندار تبصرہ اور محاکمہ آگیا، جو ثقافتی احباب کے منصوبے کے خلاف پڑتا ہے اس لئے انہوں نے اس کو گول مول کرنے کے لئے یہ سکیم بنائی کہ اس باب کے بعد جو باب ہے اس کا ترجمہ بھی اس سے جوڑ دیا جائے تاکہ امام صاحب رحمہ اللہ کا تبصرہ اور محاکمہ ’’بین السطور‘‘ ہو جائے۔ اور بعد کے باب میں امام صاحب رحمہ اللہ نے بعض استثنائی صورتوں سے متعلقہ ایک حدیث پر جو روشنی ڈالی ہے، اس کا استحصال کیا جائے تاکہ ’’تبصرہ‘‘ اور ’’محاکمہ‘‘ کے ممکن اثرات سے کسی طرح پیچھا چھڑایا جا سکے۔ ہمارے نزدیک پھلواری صاحب کی یہ جعل سازی صحافتی دیانتداری کے بالکل خلاف ہے اور موصوف سے جو ہمیں حسن ظن ہے، اس کو بھی کافی نقصان پہنچا ہے بلکہ انہوں نے اصل محاکمہ کو ’’بین السطور‘‘ کر کے اس سے صرفِ نظر کرنے کے امکانات پیدا کرنے کی جو سعی فرمائی ہے، اس کو کوئی بھی اہلِ علم بنظرِ استحسان نہیں دیکھے گا۔ مضمون اور تبصرہ کے اخیر میں اپنے خصوصی اغراض کے لئے انہوں نے جس باب کے اضافے سے ’’المدد‘‘ کی درخواست کی ہے۔ دراصل وہ بات ان کے لئے مفید طلب نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ مسئلہ یہ ہے کہ اصل میں سماع حرام ہے مگر بعض استثنائی صورتیں ایسی بھی ہیں جو بے ضرر ہونے کی وجہ سے جائز ہو سکتی ہیں لیکن ان بعض استثنائی صورتوں کی پوری حرام موسیقی کے لئے وجہِ جواز بنانا ایک ’’حیلۂ پرویزی‘‘ ہے۔