کتاب: محدث شمارہ 20 - صفحہ 35
امام شوکانی رحمہ اللہ اور مسئلہ غنا! ایک عجیب جعل سازی تجزیۂ افکار مولانا عزیز زبیدی واربرٹن ادارہ ثقافتِ اسلامیہ لاہور کے بیشتر اہلِ قلم ارکان حلّتِ سماع کی طرف مائل ہیں اور اس مضمون پر انہوں نے خاصی محنت کر کے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش فرمائی ہےکہ سماع کا ذوق قابلِ قدر ہے، با ذوق لوگ موسیقی کی دل نواز تانوں سے لطف انداز ہونا چاہیں تو ضمیر کی خلش سے آزاد ہو کر محظوظ ہو سکتے ہیں ۔ ان دوستوں کے تعامل سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ اس امر کے بھی قائل ہیں کہ سیاست کی طرح دین کو بھی عوامی ہونا چاہئے یعنی عوام کا رہنما نہیں ، ان کی خواہشات کے تابع ہونا چاہئے، اس لئے یہ نیم سرکاری ادارے ’’دین‘‘ کو دلچسپ، معشوق اور مرغوب بنانے کے لئے متداول ثقافتی غازے اور کاجل پیش فرماتے رہتے ہیں گویا کہ ایمان داعیہ قلب نہیں ، نفس و ہویٰ کا کوئی شکار ہے۔ انا للہ! ادارہ ثقافتِ اسلامیہ لاہور نے مختلف اوقات میں ’’موسیقی‘‘ کو اسلامی ثقافت بنانے کے لئے جتنا کچھ کیا ہے وہ ان کی مطبوعات کے مطالعہ سے بالکل واضح ہے۔ اس وقت اس ادارے کا ’’المعارف‘‘ (بابت ماہ جولائی) ہمارے سامنے رکھا ہے۔ اس میں ’’امام شوکانی رحمہ اللہ اور مسئلہ غنا‘‘ کے عنوان سے سماع کے بارے میں امام شوکانی رحمہ اللہ کے نقطہ نظر پیش کرنے کا اعلان کر کے دراصل وہ اپنی بات امام شوکانی کے طویل اقتباس سے اگلوانے کی ایک عجیب چال چلے ہیں ، جس کی ایک اہلِ قلم سے توقع نہ تھی۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے: سماع کے موضوع پر حضرت امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک خاص رسالہ تحریر کیا ہے اور نیل الاوطار میں بھی اس سے بحث کی ہے اور باب ما جاء فی اٰلة اللھو میں جانبین کے دلائل کےسے بحث کر کے آخر میں ’’محاکمہ‘‘ بھی کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ: ’’اگر سماع حرام نہ ہو تو مشتبہ ضرور ہے جس سے مومن (حرام کی طرح) ہی بچتا ہے۔‘‘ (نیل الاوطار باب ما جاء فی اٰلة اللھو ص ۸۷، ۸) معاصر ’’المعارف‘‘ کے جناب پھلواروی صاحب (جنہوں نے ہر ’’اسلام دشمن موضوع‘‘ کو دل نواز بنانے