کتاب: محدث شمارہ 20 - صفحہ 33
کو بھی ’واجب‘ سے باز رکھنے کا ارتکاب کر ڈالتے ہیں جو سر تاپا راہِ حق مارنے کے مترادف ہوتا ہے بلکہ تاویل کر کے بعض اوقات وہ دینی فریضہ چھڑانے کے لئے خارجیوں کی طرح مسلمانوں کے خلاف جہاد بھی کر گزرتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے ہاتھوں نہ دنیا کی بگڑی بن پاتی ہے اور نہ دینِ کامل کی کوئی خدمت ہو سکتی ہے۔ ان کی اجتہادی فروگزاشتوں سے تو درگزر ممکن ہے لیکن ان کی حماقتوں کا کوئی علاج نہیں ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو سب سے خسارے میں ہے کہ دنیا میں کھو کر سمجھ رہا ہے کہ وہ خوب کر رہا ہے۔ (الذین ضل سعیھم فی الحیوۃ الدنیا وھم یحسبون انھم یحسنون صنعا) میانہ رو لوگ: تیسرا گروہ ’اُمت وسط‘ ہے یعنی وہ ’محمدی‘ لوگ ہیں جن کا دین محمدی ہے یہ خاصانِ خدا نائب رسول کی حیثیت سے قیامت تک لوگوں پر حکمرانی کریں گے۔ ان کا کام یہ ہو گا کہ وہ رفاہِ عامہ کے لئے مال خرچ کریں ۔ خلقِ خدا کو نفع پہنچائیں ۔ اگر وہ صاحبِ اقتدار ہوں تو ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ملک و ملت کی اصلاح کریں ، اقامتِ دین کے لئے کوشاں رہیں ، اور ان کو دنیا کو تھامنے کی کوشش کریں جو عوام کے دین اور عفتِ نفس کے لئے ضروری ہے۔ لہٰذا چاہئے کہ اس سے زیادہ حرص نہ کریں ، جس کے وہ مستحق نہیں ، نیز تقویٰ اور احسان دونوں صفات اپنے اندر جمع کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی معیت ان کو حاصل ہوتی ہے جو متقی ہیں اور پورے حضورِ قلب کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں (ان اللہ مع الذین اتقوا والذین ھم محسنون) السیاسۃ الشرعیۃ ص ۲۷۔۲۸) حضرت امام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ نے سیاستدانوں کی نفسیات، ہیرا پھیری یا خلوص، دل سوزی، ان کے کردار اور فرائض کی جو تصویر پیش کی ہے، اس کے مطالعہ کے بعد ہمیں اپنے عہد کے سیاستدانوں کے سمجھنے میں بڑی مدد مل سکتی ہے اور جو سیاستدان پُر فریب نعروں کی اوٹ میں عوام کا شکار ر رہے ہیں یا جو خلقِ خدا کی دنیا اور دین کے سلسلہ میں پُر خلوص محنت کر رہے ہیں ان کو آسانی کے ساتھ پرکھا جا سکتا ہے، بشرطیکہ ہم خود بھی کچھ کرنا چاہتے ہوں اور خدا کے ہاں اپنی جواب دہی کا احساس بھی رکھتے ہوں ۔