کتاب: محدث شمارہ 20 - صفحہ 32
اس فرصت میں ہم اس کا ماحصل پیش کرنا چاہتے ہیں ، کیونکہ یہ وقت کی آواز بھی ہے اور دل کی صدائے دلگداز بھی۔ اس وقت میرے سامنے اس کا جو نسخہ ہے وہ مصر میں ’’مطبعہ خیریہ‘‘ کا مطبوعہ ہے جو ۱۳۲۲ میں طبع ہوا تھا۔ فرمایا: سیاستدانوں کی تین قسمیں ہیں : اپنی برتری کے خبطی: ایک گروہ وہ ہے جس کو دنیا میں اپنی برتری کا خبط اور تخریبی کارروائیوں کا چسکا ہے ان لوگوں کو عاقبت اور اپنا انجام بالکل دکھائی نہیں دیتا۔ چونکہ ان کا ترکشِ حیات عمل صالح اور کردار کے تیروں سے خالی ہے اس لئے وہ اپنی اس کمی کو پورا کرنے کے لئے یہ رائے رکھتے ہیں کہ اپنی شان و شوکت او ہر دل عزیزی کو قائم رکھنے کے لئے ’’داد و دہش‘‘ کرنا ضروری ہے یعنی روٹی کپڑے کا جال بچھا کر لوگوں کا شکار کیا جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ پہلے مال ناجائز طریقے سے حاصل کیا جائے۔ چنانچہ پہلے وہ لوگوں کو لوٹتے پھر سیاسی رشوت کے طور پر اسے لٹاتے ہیں ۔ (فصاروا فھا بین وھابین) ان کا کہنا ہے کہ سیاسی رشوت دیئے بغیر کرسیٔ اقتدار کا تحفظ ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ جب کوئی ایسا بے لوث جو کھانے کھلانے کی بات نہیں کرتا، آجاتا ہے تو حکامِ بالا کی نگاہِ کرم بدل جاتی ہے اور اسے معزول کر کے دم لیتے ہیں (سخط علیه الروساء وعزلوہ) یہ وہ طبقہ ہے جس نے دنیا کو ہی سبھی کچھ سمجھ لیا ہے اور آخرت کو مہمل جان کر نظر انداز کر دیا ہے اگر توہ کر کے اصلاحِ حال کی طرف توجہ نہ دی تو دنیا اور آخرت دونوں اعتبار سے ان کا انجام بُرا برآمد ہو گا۔ (فعاقبتھم عاقبة ردیئة فی الدنیا والاخرۃ) اللہ سے ڈرنے والے: لیکن دوسرے وہ لوگ ہیں جو خوفِ خدا رکھتے ہیں اور اپنے ایمان پر قائم ہیں جو ان کو مخلوقِ خدا پر ستم ڈھانے اور ناجائز کاموں کے ارتکاب کرنے سے باز رکھتا ہے لیکن بایں ہمہ وہ بھی یہ یقین رکھتے ہیں کہ غلط راہ چلے بغیر سیاست چلتی نہیں ۔ (لکن قد یعتقدون مع ذٰلک ان السیاسة الا بما یفعله اولئک من الحرام) بسا اوقات بزلی، بخیلی اور تنگ ظرفی کے بھی وہ بیمار ہوتے ہیں ۔ اس لئے اپنی دینداری کے باوجود کبھی ’’واجب‘‘ کام چھوڑ بیٹھتے ہیں جو بعض محرمات کے ارتکاب سے بھی زیادہ سنگین نکلتا ہے۔ خود کیا دوسروں