کتاب: محدث شمارہ 20 - صفحہ 30
مخلوق بھی ان بندوں پر درود بھیجتی ہے جو سحری کھا کر اپنے ہی پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں ۔ یہ تیرا کتنا بڑا کرم ہے کہ تو ان بندوں کو اپنے سلام اور درود کا مستحق جانتا ہے۔ جو سارا سال تیری یاد سے غافل رہتے ہیں ۔ مولائے کریم! تو واقعی بڑا عظیم ہے۔ تو غفور و رحیم ہے۔ مولا! یہی دعا ہے کہ تو ہمیں اپنے احکام کی پابندی اور اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے کی توفیق دے (آمین) اے اللہ! رحمتی وسعت کل شیء تیرا فرمان ہے۔ اے باری تعالی! ’’رحمتی سبقت علٰی غضبی‘‘ تیرا ارشاد ہے۔ یا الٰہ العالمین! ’’انت مقصودی ورضاک مطلوبی‘‘ دنیا عبد الرحمٰن عاجزؔ مالیر کوٹلوی یہ نظم ذو قافیتیں (دو قافیہ والی) ہے کمال فکر و دانش ہے زوالِ رغبتِ دنیا! زوالِ فکر و دانش ہے کمالِ قربتِ دنیا یہ دنیا ہے، نہ کر اس میں ملالِ کلفتِ دنیا غلط ہے راہِ دنیا میں خیالِ راحتِ دنیا نہ لا لب پر کبھی اے دل! سوالِ ثروتِ دیا کہ ثروت ساتھ لاتی ہے خیالِ عشرت دنیا خیالِ عشرت دنیا سے فتنے جاگ اُٹھتے ہیں انہیں فتنوں کا مظہر ہے زوالِ حشمتِ دنیا وہ رہتے ہیں ہمیشہ شادماں اپنی فقیری پر جنہیں ہے علمِ انجامِ جلالِ سطوتِ دنیا محبت کر نہ دنیا سے کہ اس کو چھوڑ جانا ہے رولائے گا دمِ رحلت مآلِ الفتِ دنیا اگر ہے آج تیرے پاس تو کل ہے ان کے ہاتھوں میں ہمیشہ منقلب رہتا ہے حالِ دولتِ دنیا جفا و جور قہر و جبر مغروری و بدکاری یہ ہیں ساری علاماتِ وبالِ ثروتِ دنیا پہنچنا ہے تجھے منزل پہ منزل دُور ہے عاجزؔ سنبھل، اُٹھ، جاگ اے محوِ جمالِ جنتِ دنیا