کتاب: محدث شمارہ 20 - صفحہ 24
وان صامه جس نے ماہ رمضان کا ایک روزہ بھی بغیر کسی (شرعی) عذر یا بیماری کے ترک کیا تو وہ قیامت تک بھی لگاتار روزے رکھتا رہے تو اس روزے کی قضا ادا نہیں ہو سکتی۔ روزہ کی فضیلت: جب ہم روزے کی فضیلت کا ذِکر کرتے ہیں تو دو چیزیں ذہن میں اُبھرتی ہیں ۔ بعض لوگ رمضان کی فضیلت کو ہم معنیٰ سمجھتے ہیں ، لیکن اگر بنظرِ غائر قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ماہِ رمضان کی فضیلت ایک الگ پہلو ہے اور روزے کی فضیلت ایک جدا موضوع ہے۔ ہم رمضان کی فضیلت کو کسی اور وقت کے لئے اُٹھا رکھتے ہیں ۔ یہاں صرف روزے کی فضیلت یا روزہ رکھنے والے کی عزت و عظمت پر بحث کرتے ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ جس طرح ’’رمضان‘‘ تمام مہینوں سے افضل ہے اسی طرح روزہ بھی عبادات میں افضل ترین نہیں تو افضل تر ضرور ہے۔ روزہ دار کی جو قدر و منزلت خدا کی نگاہ میں ہے۔ اسے حدیث کے الفاظ ہی میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: قال اللہ عزوجل کل عمل ابن اٰدم له الا الصیام فانه لی وانا اجزی به والذی نفس محمد بیدہ لخلوف فم الصائم اطیب عند اللہ من ریح المسک ابن آدم ہر عمل اپنے لئے کرتا ہے مگر روزہ صرف میری خاطر رکھتا ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ خدا کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے، روزے دار کے منہ کی بد بُو خدا تعالیٰ کے نزدیک مشک و عنبر سے بھی زیادہ فرحت افزا ہے۔ مسلم شریف میں الفاظ اس طرح ہیں : ولخلوف فیه اطیب عند اللہ من ریح المسک ذرا غور کیجئے کہ وہ خالق و مالک، وہ جبار و قہار اپنے حقیر بندے کی کتنی تعظیم کرتا ہے کہ ہمارے منہ کی بُو بھی اسے کستوری سے زیادہ پاکیزہ معلوم ہوتی ہے۔ روزے دار کی دوسری فضیلت آپ نے یہ فرمائی: