کتاب: محدث شمارہ 20 - صفحہ 22
مجاہد صحیح معنوں میں مجاہد نہیں کہلا سکتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ننگے پاؤں چلنے کی مشق کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ مسلمان کی زندگی میں ایسے حالات بھی رونما ہو سکتے ہیں ، جہاں اسے جسمانی مشقتیں برداشت کرنا پڑیں یا فاقہ کشی کی نوبت آئے، موسم گرم ہو یا سرد، دن ہو یا رات، سفر ہو یا حضر، مجاہدینِ اسلام کو ہر حال میں دشمن کے سامنے دینہ سپر ہونا پڑتا ہے۔ اس لحاظ سے روزہ مجاہدین کی جسمانی تربیت اور فوجی ٹریننگ کا ذریعہ بھی ہے۔ تاریخِ اسلام اس بات پر گواہ ہے کہ غازیانِ صف شکن کئی کئی فاقے کی صعوبتیں جھیلتے ہوئے بھی دشمن کے سامنے ڈٹے رہتے۔ جنگ خندق کے موقع پر صحابہ کرام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تین روز سے فاقہ تھا مگر اس کے باوجود حوصلے بلند اور ولولے جوان تھے۔ اور یہ کیسا عجیب اتفاق ہے کہ مسلمانوں نے بڑے بڑے مصر کے رمضان کے مہینے میں ہی سر کیے۔ کفر اور اسلام کا پہلا معرکہ غزوۂ بدر رمضان المبارک میں ہی سر ہوا۔
روزے کا ایک روحانی فائدہ یہ بھی ہے کہ روزہ ایک مسلسل عبادت ہے اور روزہ دار سحری سے غروب آفتاب تک کا سارا وقت خدا کی عبادت میں بسر کرتا ہے۔ ایک نماز پڑھ لینے کے بعد ممکن ہے۔ آپ دوسری نماز تک یاد خدا سے غافل ہو جائیں ۔ کاروبارِ حیات میں غفلت انسان کو خدا سے دور رکھے مگر روزہ رکھ لینے کے بعد اگر آپ زبان سے خدا کو یاد نہ کریں تو بھی آپ خدا کی عبادت میں تصور کیے جائیں گے اگرچہ تجربہ اور مشاہدہ یہی ہے کہ روزہ دار سحر سے لے کر افطار تک ہر لمحہ اور ہر گھڑی خدا کی یاد میں مگن رہتا ہے کیونکہ جب اس کے دل میں یہ احساس جاگ اُٹھتا ہے کہ وہ خدا کی خوشنودی کی خاطر بھوک پیاس کو برداشت کرنے کی پابندی قبول کر چکا ہے تو وہ اس کوشش میں رہتا ہے کہ اس کا کوئی بھی لمحہ یادِ خدا سے غفلت میں بسر نہ ہو۔ چہ خوب ؎
صرفِ عصیاں ہوا وہ لحظۂ عمر
جو تری یاد میں بسر نہ ہوا
اطاعت کا اصل مقصود ہی خدا کی یاد ہے اور اس کی یاد ہی اس کی اطاعت کی اساس ہے اور یادِ خدا انسان کو تمام برائیوں سے روک دیتی ہے۔ اس عبادت کا یہی اہم تقاضا ہے کہ ہم دن بھر کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے اس عبادت کی رُوح زخمی ہو۔
یہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ صرف کھانے پینے سے رک جانا ہی ’’روزہ‘‘ نہیں کہلاتا بلکہ روزے کا