کتاب: محدث شمارہ 20 - صفحہ 21
جنسی تحریک کی مدافعت کا باعث بنتی ہے لیکن غذا کی کمی اسلام کا منشا نہیں ۔ اسلام یہ سبق نہیں دیتا، کہ انسان ایسی ضروری غذا سے بھی اپنے آپ کو محروم کرے جس سے اس کی صحت کا دیوالیہ نکل جائے۔ غذا کو اس حد تک کم کر دینا جو بدن میں قوت و توانائی برقرار نہ رکھ سکے یا ایسی ریاضت یا محنت شاقہ جس میں بدن ٹوٹ جائے، ریاضت یا عبادت نہیں بلکہ وہ ایک سزا ہے اور خدا اپنے بندوں پر نہایت مہربان ہے، وہ نہیں چاہتا کہ انسان اپنے آپ کو خواہ مخواہ ہلاکت کے سپرد کر دے۔ اسی لئے فرمایا:
لَا تَقْتُلُوْآ اَنْفُسَکُمْ (کہ تم اپنی جانوں کو جان بوجھ کر ہلاکت میں نہ ڈالو)
دوسری جگہ فرمایا:
یُرِیْدُ اللہُ بِکُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ
وہ (خدا) تمہیں سہولت دینا چاہتا ہے اور تمہارے لئے تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا۔
پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’ المومن القوی خیر واحب الی اللہ من المومن الضعیف وفی کل خیر‘‘
کہ طاقت ور مومن خدا کو نحیف و نزار مومن سے زیادہ محبوب ہے اور ان دونوں میں بھلائی ہے۔
پس روزے کا مقصد یہ نہیں کہ اس سے جنسی جذبات کا خاتمہ مقصود ہے بلکہ روزہ تو ایک ایسی پوشیدہ عبادت ہے جس کا ظاہر داری سے کوئی تعلق نہیں ، اس کی اہمیت بھوک پیاس سے نہیں بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعے انسان ہر قسم کی خواہشات نفس سے بچار ہے، خطاؤں سے اجتناب کرے، اپنے نفس کی اصلاح اور اس کی پاکیزگی و طہارت پر کمر بستہ رہے تاکہ روزہ اس تقویٰ کو حاصل کرنے کا ذریعہ بن جائے جس کے لئے یہ فرض کیا گیا ہے۔
روزہ مشکل مہمات میں ثابت قدم رہنے میں بھی ممد و معاون ہے۔ روزے کا مقصد ضبطِ نفس ہے اور ضبطِ نفس اصل جہاد ہے۔ اگر انسان میں بھوک پیاس برداشت کرنے کی اہمیت پیدا نہ ہو گی تو وہ مشکلات کا مقابلہ نہ کر سکے گا۔ اسلام میں جہاد بھی ایک فرض اور ایک عبادت ہے۔ اس فرض کی ادائیگی کے لئے بلند حوصلہ، استقامت اور مہم جوئی کی خصوصیات مطلوب ہیں ۔ ہر قسم کے تلخ اور تند موسم میں سفر کرنے والے مجاہدوں کے لئے صبر اور بھوک پیاس برداشت کرنے کی عادت ایسی صفات ہیں کہ ان کے بغیر