کتاب: محدث شمارہ 20 - صفحہ 20
جذبات حملہ آور ہوتے ہیں ۔ روزے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ دن بھر بھوکے پیاسے رہنے سے جسمانی اعضاء میں کچھ کمزوری آجاتی ہے جس سے شہوانی جذبات کے حملے ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں ۔ بھوک اور پیاس جنسی جذبات کی برانگیخت کو کچل دیتے ہیں ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’الصوم جنة‘‘ کہ روزہ ڈھال ہے۔
اس سے مراد صرف یہی نہیں کہ یہ صرف دوزخ کی آگ سے ڈھال ہے بلکہ اس سے یہ بھی مراد ہے کہ روزہ جنسی ہیجان نیز مادی او روحانی ہر قسم کی بیماریوں کے لئے ڈھال ہے اس طرح کہ بھوک پیاس اس کی جنسی خواہشات کو دبا کر اسے خداوند کریم کی طرف راغب کرتے ہیں ۔ بخاری اور مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے:
یا محشر الشباب من استطاع منكم الباءة فليتزوج فانه اغض للبصر واحفظ للفرج ومن لم يستطع فعليه بالصوم فان له وجاء
کہ اے نوجوانو! تم میں سے جسے نکاح کرنے کی توفیق ہو اسے چاہئے کہ ضرور نکاح کرے، کیونکہ نکاح شرم و حیا اور شرمگاہ کی حفاظت کے لئے سب سے زیادہ مفید ہے اور جس نوجوان کو نکاح کی استطاعت نہ ہو اسے لازم ہے کہ وہ روزے رکھے کیونکہ روزہ جنسی ہیجان کا تدارک کرتا ہے۔
دوسرے الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ روزہ جسم اور روح کے توازن کو برقرار رکھنے کا نام ہے۔ جسدِ انسانیت سے مادیت کے طوفان ہر آن اُٹھتے رہتے ہیں اگر ان طوفانوں کے سامنے بند نہ باندھا جائے تو یہ خاکی بدن ہویٰ و ہوس کا مظہر بن کر رہ جائے، خواہشاتِ نفسانی اس قدر سر کش اور غالب ہو جائیں کہ انسان ان پر کنٹرول نہ کر سکے۔ لہٰذا خداوند کریم نے ضبطِ نفس اور مادیت کے غلبے سے بچانے کے لئے روزے جیسے عظیم عبادت کا انعام اسے عطا فرمایا تاکہ اس کی روح اور جسم میں توازن برقرار رہے اور نفسِ انسانی مطیع و منقاد ہو کر خدا کی یاد میں مگن رہے۔
یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے۔ مذکورہ بالا حدیث سے یہ مطلب ہرگز اخذ نہ کرنا چاہئے کہ اسلام رہبانیت کی تعلیم دیتا ہے اور بدھ مذہب یا ہندومت کی طرح نفس کشی کی ترغیب دیتا ہے۔ بلکہ اس حدیث کے بارے میں فقہاء کا استدلال یہ ہے کہ روزے سے انسان خوراک کی ایک متناسب مقدار پر قناعت کرنے پر مجبور ہوتا ہے جس سے اس کے بدن میں کمزوری تو ضرور آتی ہے جو بدن میں