کتاب: محدث شمارہ 20 - صفحہ 19
اگر عورت کو نقاب اوڑھنے کا حکم دیا تو ساتھ قید بھی لگائی: قُلْ لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِھِنَّ کہ اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مومن عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں ۔ اور یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ جس عورت کی نگاہ عصمت و عفت اور فطری حیا سے خالی ہے۔ اس کے لئے اگر لاکھ نقابوں کا اہتمام بھی کر لیا جائے تو وہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا جس کے لئے ’’یغضضن من ابصارھن‘‘ کی ضرورت پیش آئی۔ روزہ بھی اس حکمت سے خالی نہیں ۔ روزہ سے جہاں انسان کی باطنی طہارت اور روحانی صحت کا التزام کیا گیا ہے وہاں اس کی جسمانی صحت اور نظامِ انہضام کی خرابیوں کا علاج بھی اس میں موجود ہے۔ پھر یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ کثرت خوری اور وقت بے وقت کھانا معدے کی امراض کا موجب ہیں ۔ اس سے جسمانی نشوونما صحیح طریق پر نہیں ہوتی بلکہ غیر متناسب غذا اور کھانے کے غیر متعین اوقات کی بدولت اکثر لوگ لبِ گور پہنچ جاتے ہیں ۔ سال بھر کی ان بے قاعدگیوں کو روکنے اور صحت اور تندرسی کے اصولوں پر عمل پیرا ہونے کے لئے یہ لازم تھا کہ انسانوں کو تیس روز تک پابند کیا جاتا کہ وہ متعینہ وقت پر کھائیں پئیں اور مقررہ وقت کے بعد کھانے پینے سے ہاتھ کھینچ لیں ۔ یہ کیسی حکمت ہے کہ عبادات کے ساتھ ساتھ انسان جسمانی صحت بھی حاصل کرتا ہے اور روح کی بالیدگیوں کے ساتھ ساتھ اس کی جسمانی صحت بتدریج کمال حاصل کرتی جاتی ہے۔ تجربہ شاہد ہے کہ رمضان میں اکثر لوگوں کی جسمانی بیماریاں محض کھانے کے اوقات کی پابندی کی بنا پر خود بخود دور ہو جاتی ہیں ۔ چنانچہ بڑے بڑے مفسرین اور ائمہ مجتہدین نے روزے کی دوسری حکمتوں کے ضمن میں حکمتِ صحتِ جسمانی کا ذکر بھی کیا ہے۔ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’روزہ بدن کی زکوٰۃ ہے۔‘‘ یعنی جس طرح زکوٰۃ دینے سے مال پاک ہو جاتا ہے اسی طرح روزہ رکھنے سے جسم بھی بیماریوں سے پاک ہو جاتا ہے۔ بسیار خوری سے مادیت کا غلبہ بڑھتا ہے اور شہوانی