کتاب: محدث شمارہ 20 - صفحہ 18
تقویٰ ہے کہ محض اللہ تعالیٰ کے ڈر سے اپنی خواہش پر اس نے غلبہ پا لیا اور یہ تقویٰ (خواہشات پر کنٹرول) انسان کی ساری زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے مثلاً اگر وہ دوکاندار ہے تو میزان میں کمی بیشی کا مرتکب نہ ہو گا اگر کپڑے کا تاجر ہے تو ماپ میں ہیرا پھیری کی خواہش کا گلا گھونٹ دے گا۔ اگر کسی میڈیکل ہال کا مالک ہے تو دواؤں پر ناجائز منافع حاصل کر کے حصولِ زر کی خواہش کا احترام نہ کرے گا اور اگر ڈاکٹر ہے تو پانی میں رنگ ملا کر غریب مریضوں کا خون چوسنے اور اس طرح زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کی خواہش کا حصول اس کے لئے ناممکن ہو گا۔ علیٰ ہذا القیاس روزہ انسان کے نفس کی اس طرح سے تربیت کرے گا کہ ہر لمحہ خوفِ خدا اس کو گناہوں سے باز رکھے گا اور برضا الٰہی اس کا مقصود ہو گی جو خداوند کریم سے اس کی قربت کا باعث بنے گی۔ اس لئے خداوند کریم نے فرمایا: ’’الصوم لی وانا اجزی به‘‘ (حدیث قدسی) کہ روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا اجر عطا کروں گا ۔ [1] دوسری حکمت یہ بیان فرمائی: وَلِتُکْمِلُوْا الْعِدَّۃَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلٰي مَا ھَدٰكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ تاکہ تم روزوں كی گنتی پوری کرو (یعنی روزے پورے رکھو) اور ساتھ ساتھ خدا تعالیٰ کی بزرگی اور عظمت کے گن گاؤ۔ اس لئے کہ اس نے تمہیں ہدایت دی۔ تاکہ تم اس کے شکر گزار بندے بن جاؤ۔ گو یا روزے میں یہ حکمت بھی پوشیدہ ہے کہ ہم خداوند کریم کی قدر و منزلت پہچانیں اور اس کی ان نعمتوں کا، جو ہم کھاتے ہیں ، شکر بجا لائیں اور ظاہر ہے یہ چیز بھی رضا و خوشنودیٔ الٰہی کی بنا پر اللہ تعالیٰ سے قربت کا ایک ذریعہ ہے۔ روزے کے فوائد۔ مادی اور روحانی: اسلامی عبادات میں ظاہری اور باطنی ہر قسم کی پاکیزگی کا التزام ہر جگہ موجود ہے۔ نماز اگر آئینہ دل کو مجلّٰی اور مصفٰی کرتی ہے تو وضو جسمانی طہارت اور پاکیزگی کے لئے نماز کی اوّلیں شرط قرار پایا۔ اسی طرح
[1] اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ روزہ کے علاوہ باقی عبادات خداوند کریم کے لئے نہیں ہیں اور ان کا اجر بھی کوئی اور عطا کرے گا بلکہ اس کی وجہ روزے کی افضلیت ہے۔ افضلیت ہے۔ کیونکہ یہ خالق و مخلوق، مالک و مملوک اور بندہ اور آقا کے درمیان ایک راز کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس کی حقیقت ماسوائے اللہ کے کسی کو معلوم نہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ اس کا خصوصی اجر عطا فرمائیں گے۔