کتاب: محدث شمارہ 20 - صفحہ 17
اس کی بھوک اور پیاس کی کوئی ضرورت نہیں ۔ روزہ کی حکمت: خداوند کریم نے اپنے بندوں کے لئے عبادات کے جتنے بھی طریقے بتائے ہیں ان میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور پوشیدہ ہے۔ نماز خدا کے وصال کا ذریعہ ہے۔ اس میں بندہ اپنے معبودِ حقیقی سے گفتگو کرتا ہے۔ بعینہٖ روزہ بھی خدا تعالیٰ سے لَو لگانے کا ایک ذریعہ ہے۔ جہاں نماز کے بارے میں یہ ارشاد ہے: اِنَّ الصَّلوٰۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْكَرِ (کہ نماز بے حیائی اور بُرے کاموں سے روکتی ہے۔) وہاں روزے کے بارے میں فرمایا: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرة: آيت نمبر ۱۸۳) کہ اے ايمان والو! تم پر روزے اسی طرح فرض کئے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم متقی بنو۔ اس آیت میں روزہ کی حکمت یہ بیان فرمائی کہ یہ تقویٰ کا باعث ہے جس کی تفصیل یوں ہے کہ روزہ دوسری تمام عبادات سے بوجوہ منفرد ہے کہ یہ خدا اور بندے کے درمیان راز و نیاز کا معاملہ ہے جبکہ دوسری تمام عبادات مثلاً نماز، حج اور قربانی وغیرہ ظاہری عبادات ہیں جو ظاہری حرکات و سکنات سے بے نیاز ہونے کے باعث ریا جیسی بیماری سے جو کہ بڑی بڑی عبادتوں پر پانی پھیر سکتی ہے۔ محفوظ و مامون ہے اس لئے کہ روزہ دار کے روزہ کی حقیقت (کہ وہ روزے سے ہے یا نہیں ) خداوند تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر ایک آدمی وضو کرتے ہوئے تین دفعہ کلی کرتا ہے۔ اس وقت پانی اس کے منہ میں ہوتا ہے۔ وہ چاہے تو اس پانی کا اکثر حصہ اپنے حلق میں اتار سکتا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اس کی اس حرکت کو نہیں دیکھ سکتی۔ لیکن ایک چیز اسے پانی کا ایک قطرہ بھی شدید پیاس کے باوجود حلق میں پانی اتارنے سے باز رکھتی ہے اور یہ چیز خدا وند کریم کا خوف ہے جس کا دوسرا نام