کتاب: محدث شمارہ 20 - صفحہ 16
کا ایک شعر ’’صوم‘‘ کے اس لغوی معنی کو واضح کرتا ہے: خَیْلٌ صِيَامٌ وَّ خَيْلٌ غَيْرُ صَائِمَةٍ تَحْتَ الْعَجَاجِ وَخَيْلٌ تَعْلُكُ اللُّجَمَا غبار جنگ كے سایے تلے کچھ گھوڑے ثابت قدم (صائم) ہیں اور کچھ گھوڑے حرکت کرتے ہوئے (غیر صائمہ) اپنی لگاموں کو چبا رہے ہیں ۔ ابو عبیدہ نے لکھا ہے کہ: ’’ہر وہ شخص، جانور یا چیز جو کھانے سے، گفتگو سے یا چلنے سے رُک جائے اسے ’’ْصائم‘‘ کہتے ہیں ۔‘‘ اس ساری بحث سے یہ نتیجہ اخذ ہوا کہ صوم کا لغوی معنی ہے ’’کام سے رک جانا‘‘ خواہ وہ کسی نوعیت کا ہو۔ اصطلاحی معنی: اس لغوی معنی کو سامنے رکھتے ہوئے ’’صوم‘‘ کا اصطلاحِ شرع میں معنیٰ یہ ہو ا کہ انسان کا سحری کھا لینے کے بعد غروبِ آفتاب تک نہ صرف کھانے اور پینے سے رُک جانا بلکہ زبان کا جھوٹ، غیبت، چغلی اور یا وہ گوئی سے رُک جانا، ہاتھوں کا کسی کو ایذا دینے سے رُک جانا، پاؤں کا غیر شرعی سفر سے رُک جانا کانوں کا جھوٹ، غیبت، چغلی اور بے ہودہ باتوں کے سننے سے رُک جانا، نگاہوں کا خیانت سے رک جانا، غرضیکہ ’’صوم‘‘ کا صحیح مفہوم ہی یہ ہے کہ ہر برائی اور ہر خطا سے اپنے دامن کو بچانا اور خدائے کریم کی مقرر کردہ حدود میں پابند رہنا۔ نماز ایک عبادت ہے۔ اس کی کچھ شرائط اور کچھ قواعد و ضوابط ہیں ۔ مثلاً اگر بلا وضو نماز ادا کی جائے تو نماز نہیں ہوتی، یا نماز پڑھتے پڑھتے کسی سے گفتگو شروع کر دی تو بھی نماز باطل قرار پائے گی۔ بالکل اسی طرح اگر روزہ رکھ لینے کے بعد انسان جھوٹ، غیبت، چغلی، بہتان راشی، بیہودہ گوئی، سبّ و شتم اور دوسرے اعمالِ بد سے اپنے آپ کو نہیں بچاتا تو پھر یہ روزہ، روزہ نہیں بلکہ فاقہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: من لم یدع قول الزور واعمل به فلیس للہ حاجة فی ان یدع طعامه وشرابه کہ (روزہ رکھنے کے بعد) جو شخص جھوٹ اور غلط کاموں کو ترک نہیں کرتا تو خدا کو