کتاب: محدث شمارہ 20 - صفحہ 15
روزہ اِس کی اہمیت اور فضیلت
چوہدری عبد الحفیظ (ایم اے)
لغوی معنی:
ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم لفظ ’’صوم‘‘ جسے قرآن حکیم میں ایک خاص عبادت کے لئے مخصوص کیا گیا ہے، کے لغوی معنی متعین کریں اور پھر دیکھیں کہ اس کا مفہوم کیا ہے۔ اس لفظ کا مادہ ص۔ و۔ م اور صوم کا لغوی معنی ہے ’’کام سے رُک جانا‘‘ کسی جگہ پر ٹھہر جانا۔ کھانے پینے، گفتگو کرنے اور چلنے سے رک جانے کو بھی صوم کہتے ہیں ۔ لغوی معنی کے لحاظ سے ’’صوم‘‘ کا اطلاق صرف روزے پر ہی نہیں ہوتا بلکہ عربی میں کہتے ہیں ۔ صامت الریح ہوا تھم گئی۔ صام النھار ظہر کا وقت ہو گیا (کیونکہ اس وقت آفتاب نصف النہار پر رکا ہوتا ہے۔) اس سے پھر ’’صامت الشمس‘‘ بھی کہا جاتا ہے یعنی سورج نصف النہار پر مرکوز ہے۔ لہٰذا ’’صوم الصائم‘‘ سے مراد کھانے پینے اور ان تمام امور سے باز آجانا ہے جن سے اسے منع کیا گیا ہو۔ گفتگو سے رک جانے کو بھی ’’صوم‘‘ ہی کہتے ہیں ۔ سورۂ مریم میں ہے:
اِنِّيْ نَذَرْتُ لِلْرَّحْمٰنِ صَوْمًا (کہ بے شک میں نے خدا کی رضا کی خاطر چپ کا روزہ رکھا ہے)
اور ساتھ ہی تشریح بھی کر دی:
فَلَنْ اُكَلِّمَ الْيَوْمَ اِنْسِيًّا (کہ میں آج کسی انسان سے بات نہ کروں گی)
قرآن مجید ہی سے ثابت ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام کا وہ روزہ کھانے پینے سے رُک جانے کا نہ تھا کیوں کہ اس سے پہلے خود خدا وند کریم کی طرف سے انہیں حکم ہوا تھا:
’’فَکُلِیْ وَاشْرَبِیْ‘‘ (کھجوریں کھا اور چشمے کا پانی پی، ہاں اگر کوئی آدم زاد آئے تو کہہ دینا میں نے خدا کی رضا کے لئے چپ کا روزہ رکھا ہے۔‘‘
عربی میں بعض اوقات ’’قائم‘‘ کو ’’صائم‘‘ بھی کہتے ہیں اس لئے کہ وہ اپنی جگہ پر ساکت ہوتا ہے۔ نابغہ