کتاب: محدث شمارہ 20 - صفحہ 13
’’۱۹۶۹ء میں ۱۲ لاکھ ۵۹ ہزار اور ۱۹۷۱ء میں ۲۹ لاکھ ۵۸ ہزار روپے کی غیر ملکی فلمیں درآمد کی گئیں اور یہ بھی بتایا کہ سالِ رواں کے پہلے چھ ماہ میں ۳۱ لاکھ ۵۲ ہزار روپے کی فلمیں درآمد کرنے کے لئے جو لائسنس جاری کئے گئے۔ ان کے علاوہ اسی سال ۳۷ لاکھ روپے کی الگ ادائیگی بھی کی گئی جو ان غیر ملکی فلموں کے سلسلہ میں تھی جو کرایہ کی بنیاد پر حاصل کی گئیں ۔‘‘ غور فرمائیے! یہ ان مسلمان عوام اور معاشرہ کی خدمت ہو رہی ہے جن سے کہا گیا تھا کہ روٹی، کپڑا اور مکان بھی دیں گے اور ایمان بھی۔ اصل بات یہ ہے کہ روٹی کپڑا اور مکان کا جو حشر ہوا، ایمان کا بھی اس سے مختلف نہیں ہو سکتا تھا۔ اور نہ ہوا۔ بس ؎ نہ خدا ہی ملانہ وصالِ صنم نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے (۱۰) پنجاب کے گورنر کھر نے اعلان کیا ہے کہ راولپنڈی سے واپسی پر دو نئے وزراء کا تقرر کریں گے، اس پر معاصر لکھتا ہے کہ: ’’جب سے عوامی حکومت بر سرِ اقتدار آئی ہے، ملازمت یا مزدوری ملے یا نہ ملے، وزارتوں کے دروازے کھل گئے ہیں ۔ وزیروں ، مشیروں ، وزراءِ مملکت اور سپیشل اسٹنٹوں کی فوج ظفر موج سارے ملک میں نمایاں دکھائی دیتی ہے، ملک نصف رہ گیا ہے لیکن وزیروں اور مشیروں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے، ملک کو چلانے کے اخراجات بڑھ گئے لیکن کاروبارِ حکومت ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے۔ اتنے وزراء کے باوجود سرکاری دفاتر میں کام نہیں ہوتا۔ مسائل حل نہیں ہو رہے۔ ہم کسی کے رزق کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے نہ ہم کسی کے ارمانوں کا خون کرنا چاہتے ہیں ۔ لیکن یہ غریب ملک ہے۔ یہ غریب صوبہ ہے۔ ہم اس غریب صوبے کے عوامی گورنر سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے وزراء کی تعداد میں دو (۲) کا اضافہ کرنے کے بجائے دو چار کی کمی کر کے کفایت شعاری کی مثال قائم کریں ۔ موجودہ دور میں وزراء کا تقرر دروازے پر ’’سفید ہاتھی‘‘ باندھ لنے سے کم نہیں ، پنجاب آخر کتنے سفید ہاتھی پالنے کا متحمل ہو سکتا ہے؟ کارخانے بند، کاروبار ٹھپ۔۔۔ آخر یہ وزیروں کے