کتاب: محدث شمارہ 20 - صفحہ 12
(۸)
’’گورنر پنجاب ملک غلام مصطفےٰ کھر نے صوبائی وزراء کو ہدایت کی ہے کہ وہ چند روز کے لئے صوبے کے مختلف حصوں میں پھیل جائیں اور ذاتی طور پر وہاں کے جرائم کی صورتِ حال کا جائزہ لیں ۔‘‘
ہمارے نزدیک گورنر موصوف کا یہ ایک تجاہلِ عارفانہ اور تکلف ہے۔ ورنہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ قائدِ عوام کی عوامی حکومت کے ان عوامی غنڈوں کی یہ کارستانیاں ہیں اور ان کی سرپرستی اور مشکل کشائی بھی انہی کے عوامی کارندے کر رہے ہیں ۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ لوگوں نے خود ہی ان کو اس راہ پر ڈالا ہے تو اس میں قطعاً مبالغہ نہ ہو گا۔ خود پولیس اس امر کی شاکی ہے کہ ہر علاقہ میں ان کے عوامی ’’رسہ گیر‘‘ ان کو قانون کے تقاضے پورے کرنے نہیں دیتے۔
دراصل یہ ساری کم بختی اور قصور ان تہی دامن سیاستدانوں کا ہے جنہوں نے حصولِ اقتدار کے لئے سماج دشمن عناصر کو سینہ سے لگایا، ان کی پشت پناہی کی اور جرائم کے باب میں ان کی خوب ناز برداریاں کیں ورنہ ’’چوری اور سینہ زوری‘‘! ایک چور کے لئے آسان بات نہیں ہوتی۔
اگر پولیس کے ریکارڈ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ جن کو داد گر سمجھا گیا ہے، اصلی ستم گر ہیں ۔
ہمارے نزدیک ایک حکومت کی بدنامی اور ناکامی کے لئے یہ بات ثبوت ہے کہ ملک کے پُر امن شہریوں کی عزت و آبرو اور مال و جان کو تحفظ مہیا کرنے میں وہ ناکام رہے۔ غور فرمائیے کہ جو روٹی کپڑے کی امیدیں باندھ رہے تھے ان کو اب جان کے لالے پڑ گئے ہیں اور جو لوگ اربابِ اقتدار کو کرسیاں مہیا کر کے خوش حالی کی راہ دیکھ رہے تھے، اب
؎ آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
والا قصہ ان کا بن گیا ہے۔ اس لئے مؤدبانہ التماس ہے کہ جنابِ کھر صاحب! قوم سے مذاق نہ کیجئے۔ دھ درد ہے تو دوا دیجئے! ورنہ دعا ہی کیجئے! ہم اسے ہی سہارا بنا لیں گے۔
(۹)
مرکزی وزیر تعلیم جناب عبد الحفیظ پیرزادہ نے قومی اجلاس کے دوران بتایا کہ:
جنوری سے جولائی تک کل ۴۱ ہزار روپے کی شراب در آمد کرنے کے لئے لائسنس جاری کئے گئے اور جماعتِ اسلامی کے غفور احمد کے سوال کے جواب میں کہا کہ: