کتاب: محدث شمارہ 2 - صفحہ 9
کی کہ اس کی مثال مخالفین میں بھی نہیں ملتی۔ رائی کاپربت بنا کر ایک دوسرے کو کافر اور دشمنِ اسلام ثابت کرنے کی کوشش کتے رہے جس سے ایک طرف عوام الزام زدگان سے بدظن ہوئے تو دوسری طرف الزام دہندہ کی اخلاق باختگی ملاحظہ کرتے ہوئے اس سے بیزار ہو گئے جس کا نتیجہ وہی نکلا جس کا خطرہ تھا۔ اس فتویٰ بازی اور الزام تراشی سے سوشلزم کے بارے میں ۱۱۳ علمائے کرام کے فتاویٰ کی حیثیت خاک میں مل گئی اور عام رجحان یہی ہوا کہ فتویٰ بازی دوسرے کو گرانے اور ناکام بنانے کا ایک ہتھکنڈا ہے۔ اس سے بھی افسوس ناک امر یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے انتخابات میں ذلت آمیز شکست کے بعد بھی اس میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ نہ ہی عملی اتحاد ہوا اور نہ ہی تحریر بلکہ شکست کا بار ایک دوسرے پر ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم کرے کہ اسلام خطرے میں ہے کا نعرہ بھی ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ طرزِ عمل بھی!!! حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ عوام کے لئے جس چیز کو کفر و اسلام کا معاملہ بتا رہے تھے ان کا اپنا عمل اس کی تکذیب کرتا تھا۔ اِس لئے عوام بھی اِن پر اعتماد نہ کر سکے اور خدائی مدد بھی شامل حال نہ ہوئی۔ کاش یہ اسلام پسند ان ملکوں کے حالات سے عبرت پکڑیں جن میں اسلام کے زوال کا باعث مسلمانوں کا تشتت و افتراق ہوا اور پوری کوششوں کے باوجود اسلام پسند اسلام کے لئے اسلام کے نام پر مل کر نہ بیٹھ سکے، انہوں نے غیر کی غلامی تو پسند کر لی لیکن یہ پسند نہ کیا کہ اپنوں کی برتری تسلیم کر لیں ۔ اب ہم اسلام کی حامی جماعتوں کے لئے کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ہم انتخابات میں ان کی ناکامی کے بعد انہیں اس بات کا احساس دِلانا ضروری سمجھتے ہیں جو ان کے لئے بے برکتی کا سبب بننے کے ساتھ ساتھ اسلامی نظام کے لئے سم قاتل ہے۔ وہ یہ ہے کہ یہ بات عام طور پر سامنے آتی ہے کہ ہم جب کسی ترقی پسند نظریہ کو دیکھتے ہیں تو اس کے مقابلہ میں ترقی پسند اسلا پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح اسلام میں جدید نظریات داخل کرنے کا موقعہ مل جائے اور غیر اسلامی نظریات میں معمولی تبدیلی کر کے کسی لفظ کا اضافہ کر کے اسے اسلامی بنانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اسلام چودہ سو سال پرانا بلکہ اتنا ہی پرانا ہے جتنی بنی نوع انسان کی عمر ہے