کتاب: محدث شمارہ 2 - صفحہ 7
کا تحفظ ہوا اور ستم زدہ طبقہ کی حمایت کے بلند بانگ دعووں کی وجہ سے عوام نے ان کی بد اعمالیوں کے محاسبہ سے توجہ ہٹا کر سب خرابیوں کا ذمہ دار ان کے مخالفین کو سمجھا۔
کامیاب ہونے والی جماعتوں اور لیڈروں نے اپنی زیادہ تر کوشش نعروں کو عوام پسند بنانے میں صرف کی اور اس بات کا بہت کم خیال رکھا کہ اس سے ان کی ذمہ داریاں مستقبل میں کیا ہوں گی؟ اسی لئے اہوں نے اپنی تقریروں میں بار بار یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ ہم صرف عوامی خواہشات کے امین ہیں ۔ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کا کتاب و سنت کا نظام رائج کرنے کا اظہار اور مغربی پاکستان میں مسٹر بھٹو کا سوشلزم کے اعلان کے بعد عوام کے نازک مذہبی احساسات کے پیش نظر اسلامی سوشلزم کا اعلان اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ اور اسلام کے منافی نظریات کے الزام سے بچنے کے لئے بعد میں اس کی تعبیر میں اسلامی مساوات اور مساوات محمدی کے نعرے استعمال کئے گئے۔ بلکہ بیشتر دفعہ کتاب و سنت اور خلافتِ راشدہ کا نظام رائج کرنے کا وعدہ اپنی تقریروں میں کیا۔ یہ سب کچھ اِس بات کا واضح ثبوت ہے کہ لیڈروں کے نزدیک انتخابات کفر و اسلام کا مقابلہ نہیں تھے اور نہ ہی اسلام ہارا ہے اور سوشلزم جیتا۔ کیونکہ اگر سوشلزم کی ہی جیت ہوتی تو نیشنل عوامی پارٹی جو سوشلزم کے بارے میں کسی حد تک مخلص معلوم ہوتی ہے، مشرقی اور مغربی پاکستان میں عظیم اکثریت سے کامیاب ہوتی لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ اس کے ایک گروپ نے اپنی کمزور پوزیشن دیکھتے ہوئے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا اور انتخابات میں حصہ لینے والے دوسرے گروپ کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان نعروں اور من گھڑت تعبیرات سے کامیاب ہونے والی جماعتوں کو واقعی یہ فائدہ تو ہوا ہے کہ وہ برسر اقتدار آرہی ہیں لیکن انہیں اچھی طرح سوچ سمجھ لینا چاہئے کہ ان کی کامیابی کے بعد حالات ان کے لئے اب بالکل بدل چکے ہیں ۔ پہلے اگر وہ محرومیوں کا زیادہ احساس دلا کر عوامی حمایت حاصل کرتے رہے ہیں تو اب انہی محرومیوں کا علاج انہیں کرنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسلام کا تحفظ اور سالامی نظام کا قیام اسی تعبیر کے ساتھ کرنا بھی ان کا فرض ہے۔ جو تعبیر وہ اپنی تقریروں میں کرتے رہے ورنہ اب ان کو عوام کے دوہرے جذبات کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ ایک طرف عوامی بدحالی کا بوجھ ان پر ہو گا اور دوسری طرف اسلامی اقدار کی پامالی