کتاب: محدث شمارہ 2 - صفحہ 6
یہ طبقاتی تقسیم موجودہ جمہوری نظام کی پیدا کردہ ہے۔ اسی لئے کمیونزم اور سوشلزم کو مغربی جمہوریت اور اس کے سرمایہ دارانہ نظام کا ہی ردِ عمل سمجھا جاتا ہے۔ جمہوری انتخابات میں دھڑے بندیاں اور پھر بر سر اقتدار آکر گروہی مفادات کا جس طرح تحفظ کیا جاتا ہے اس سے معاشرہ میں ظالم و مظلوم اور طبقاتی تفاوت کا پیدا ہونا ضروری ہے۔ خیر! حالیہ انتخابات میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے کثرت سے سیٹیں حاصل کی ہیں اور مشرقی پاکستان کے ان عوامی جذبات سے بہت فائدہ اُٹھایا ہے جو بعض وجوہات کے باعث ان کے اندر پیدا ہو گئے تھے اور مشرقی پاکستان والے اپنی مفلوک الحالی اور مصائب کا ذمہ دار مغربی پاکستان والوں کو سمجھنے لگ گئے تھے۔ ایوب خاں کے خلاف عوامی تحریک نے اس خیال کو خاصی تقویت پہنچائی جس سے شیخ مجیب الرحمن کی عوامی مقبولیت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور اگر تلہ سازش کیس سے رہائی کے بعد تو وہ مشرقی پاکستان کے عوام کے ہیرو بن گئے اسی طرح مغربی پاکستان میں مسٹر ذوالفقار علی بھٹو تھے جو ایوب خاں کے خلاف عوامی ایجی ٹیشن میں ایوب خاں کے ایک شدید مخالف کی حیثیت سے سامنے آئے اور اس سلسلہ میں انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں بھی اُٹھائیں جس سے ان کی عوامی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا اور وہ ایک عوامی لیڈر بن گئے۔ انہوں نے اپنی مقبولیت سے پورا پورا فائدہ اُٹھایا اور اس میں مزید اضافہ کرنے اور بلا شرکت غیرے قومی ہیرو بننے کے لئے اس جدوجہد آزادی کو طبقاتی جنگ میں تبدیل کرنا شروع کر دیا تاکہ ایوب خان کے ساتھ ایک دوسرے طبقہ کو بھی ان حالات کا ذمہ دار قرار دے کر غریب مزدور اور کسان طبقے کی مکمل حمایت حاصل کی جا سکے۔ گویا کہ جب اسلامی نظریۂ حیات کے داعی اس آزادی کا رُخ نظامِ اسلام قائم کرنے کی طرف پھیر رہے تھے۔ سوشلزم کے حامی عوام کو طبقاتی جنگ کے لئے ابھار رہے تھے۔ ہماری رائے میں سوشلزم کا نعرہ اور طبقاتی جنگ اقتدار کے لئے تھی تاہ غریب طبقہ کے احساسِ محرومی سے مکمل فائدہ اُٹھایا جا سکے۔ سوشلزم کے حامی سوشلزم کے نفاذ میں مخلص نہیں ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دار اس کثرت سے پیپلز میں شامل ہوئے کہ کسی دوسری جماعت میں اس کا وجود نہیں ملتا۔ اِس سے ایک طرف جہاں انہیں اقتدار کا راستہ ملا وہاں ان کے سرمائے