کتاب: محدث شمارہ 2 - صفحہ 5
اور جیت کمزوریوں پر بھی پردہ ڈال دیتی ہے۔
لیکن انسان کے لئے کامیابی کی صورت میں جس طرح شکر لازم ہے اسی طرح ناکامی کی صورت میں اپنا محاسبہ اور اصلاح فکر و نظر ضروری ہے۔ ہم انتخابات کے بعض پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے قارئین کی توجہ اسی طرح مبذول کرانا چاہتے ہیں ۔ ہماری رائے میں یہ مقابلہ ایک نفسیاتی معرکہ تھا جو جماعتیں اور شخصیتیں عوام کے جذبات سے خاطر خواہ فائدہ اُٹھا گئیں وہ کامیاب ہوئیں اور جو جذبات کا دھارا اپنی طرف نہ موڑ سکیں وہ ناکام رہیں ۔ مروجہ جمہوری نظام کے تحت انتخابات میں کامیابی اور ناکامی کے اسباب عوامی جذبات ہی ہوا کرتے ہیں ۔ اس میں عموماً کامیابی کا دارومدار نظریات کی صحت پر نہیں ہوتا۔ کیونکہ اکثریت کی نظر مادیت پر زیادہ ہوتی ہے اور بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو نظریاتی جنگ لڑتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کو فرماتے ہیں وان تطع اکثر من فی الارض یضلوک عن سبیل اللّٰہ یعنی اگر تو اکثریت کے پیچھے لگے گا وہ تجھے اللہ کے رستہ سے بھٹکا دیں گے۔ علامہ اقبال نے اسی جمہوریت کے متعلق کیا خوب کہا ہے ؎
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
ایسی جمہوریت کا مقصد صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنا نہیں ہوتا بلکہ اقلیت کو اکثریت کے تابع بنا کر بے بس کرنا ہوتا ہے خواہ نظریاتی طور پر وہ اقلیت کتنی ہی صحیح ہو بلکہ بسا اوقات اقلیت ہی جذباتی جنگ میں کامیاب ہو کر اکثریت کو اقلیت کے رنگ میں اپنا محکوم بنا لیا کرتی ہے جیسا کہ حالیہ انتخابات میں ہوا ہے۔ مغربی پاکستان میں سوشلسٹ نظام کے حامی مجموعی ڈالے گئے ووٹوں سے تقریباً ۴۰ فی صد ووٹ لے کر عوامی نمائندے منتخب ہوئے حالانکہ ۶۰ فی صد ووٹ ان کے خلاف ڈالے گئے اور ووٹ نہ ڈالنے والے تقریباً ۴۰ فی صد عوام نے بھی انہیں اپنا نمائندہ منتخب نہ کیا۔ گویا ایک اقل قلیل گروہ کی وقتی حمایت سے وہ پوری قوم پر چھا گئے۔
ہماری رائے یہ ہے کہ جس طبقاتی جنگ سے کمیونزم اور سوشلزم فائدہ اُٹھاتا ہے