کتاب: محدث شمارہ 2 - صفحہ 4
ہوئیں اور رستے بستے گھرانوں کو حسرت و یاس کی تصویر، لہلہات کھیتوں کو ویرانے اور آبادیوں کو کھنڈرات میں تبدیل کر گئیں وہاں دوسرں کے لئے سامان عبرت اور انسانی ہمدردی کا امتحان ہیں ۔ ہمیں چاہئے کہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مشکلات کو اپنی مصیبت سمجھتے ہوئے، دِل کھول کر ان کی ہر قسم کی اخلاقی اور مالی امداد کریں اور مالی تعاون کا سلسلہ اس وقت تک جاری رکھیں جب تک مصیبت زدگان مکمل طور پر آباد نہیں ہو جاتے۔ -------------------- مشرقی پاکستان میں ہلاکت اور قیامت خیزی کے چند دن بعد ہی عام انتخابات نے قوم کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لی جن کا انعقاد حسبِ اعلان ۷ اور ۱۷ دسمبر ۱۹۷۰؁ء کو ہوا اور پاکستانی عوام نے پہلی بار ’’بالغ رائے دہی‘‘ اور ’’ایک آدمی ایک ووٹ‘‘ کی بنیاد پر اس انتخاب میں حصہ لیا اور اس طرح صدر یحییٰ خاں نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے آزادانہ انتخابات کرا کر قوم سے اپنا پہلا وعدہ پورا کیا۔ اس سے قبل پاکستان میں جو انتخاب ہوتے رہے وہ نہ تو اس طرح آزادانہ تھے اور نہ ہی بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہوتے تھے۔ ان انتخابات کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ قوم کے افراد نے بہت حد تک اپنی مرضی کے مطابق ووٹ کا استعمال کیا ہے اور انتظامیہ نے سیاسی پارٹیوں اور ہر طبقۂ خیال کے اشخاص کو اپنے اپنے منشور اور نظریات کی تبلیغ و اشاعت کی مکمل آزادی دے رکھی تھی لیکن دوسری جانب اس آزادی کے پردہ میں بعض جماعتوں اور اشخاص نے ایک دوسرے پر جس ذلت آمیز پیرائے میں کیچڑ اچھالا اور بے بنیاد الزام تراشیاں کیں وہ اس آزادی کا بہت غلط استعمال ہے۔ نتیجتاً مغربی جمہوریت کے اصولوں کے مطابق دو پارٹیاں عظیم اکثریت سے کامیاب ہوئی ہیں اور شیخ مجیب الرحمان اور ذوالفقار علی بھٹو لیڈروں میں نمایاں حیثیت سے اُبھرے ہیں ۔ انتخابات پر مختلف تبصرے ہوئے ہیں اور شکست خوردہ جماعتوں کی غلطیوں کی نشاندہی کی جا رہی ہے ان کوتاہیوں سے قطع نظر ہار ہی ایک ایسی بڑی غلطی ہے جس کے ساتھ سبھی کچھ لازم آجاتا ہے