کتاب: محدث شمارہ 2 - صفحہ 32
ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے ساتھ ۱۶ اونٹ قربانی کے لئے بھیجے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایک آدمی کئی قربانیاں کر سکتا ہے اور قربانی کا مکے بھیجنا بھی ثابت ہوا۔ ۴۔ اور صحیح مسلم میں آیا ہے کہ آپ نے (حجۃ الوداع کے موقعہ پر) یک صد اونٹ قربانی کیے جس کی تفصیل یوں ہے: ثم انصرف الی المنحر فنحر ثلثا وستین بدنۃ بیدہ ثم اعطی علیا ننحر ما غبر واشرکہ فی ہدیہ ثم امر من کل بدنۃ ببضعۃ نجعلعت نی قدر نطبخت ناکلا من لحمہا وشربا من مرتھا الحدیث یعنی حجۃ الوداع میں آپ قربانی گاہ میں تشریف لے گئے اور اپنے ہاتھ مبارک سے ۶۳ اونٹ نحر کیے۔ سولہ باقی ماندہ حضرت علی کو دیئے۔ انہوں نے ذبح کئے اور آپ نے علی رضی اللہ عنہ کو اپنی قربانی میں شریک کر لیا اور ہر قربانی سے تھوڑا تھوڑا گوشت لے کر پکایا۔ پھر آپ اور علی نے کھایا اور شوربا پیا۔ اس حدیث سے کثیر تعداد میں قربانیاں دینا بھی ثابت ہوا اور یہ بھی کہ ہر قربانی سے گوشت تھوڑا تھوڑا کھانا مستحب ہے۔ ۵۔ عن زید بن ارقم قال قال اصحاب رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم یا رسول اللّٰه ما ھذہ الاضاحی؟ قال سنۃ ابیکم ابراھیم علیہ السلام قالوا: فمالنا فیہا یا رسول قال بکل شعرۃ حسنۃ قالوا فالصوف یا رسول اللّٰه؟ قال بکل شعرۃ من الصوف حسنۃ رواہ احمد وابن ماجۃ زین ارقم فرماتے ہیں کہ صحابہ نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ! یہ قربانیاں کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا۔ یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ ہے۔ پھر صحابہ نے عرض کیا کہ ہمیں اس میں کیا ملے گا؟ آپ نے فرمایاَ ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی۔ صحابہ نے عرض کیا۔ پھر کیا دنبہ اونٹ کے بالوں کے عوض بھی ایک نیکی ملے گی۔ فرمایا: ہاں ! ان کے ہر بال کے بدلے