کتاب: محدث شمارہ 2 - صفحہ 30
کی غرض کو کامل طور پر پورا کر دکھایا اور محبت اور خدا دوستی کا بے مثال ثبوت دیا۔
اس قربانی میں جس قدر اخلاص، جذبہ محبت اور صدق دلی ہے کسی اور قربانی میں ممکن نہیں ، کیوں کہ اس میں کسی قسم کا ذاتی فائدہ نہیں بلکہ بیٹے کو ذبح کرنا ہزارو دنیاوی فواد سے محرومی اور کروڑوں مسرتوں اور خوشیو کے فنا کا باعث ہے۔ ہمیں بھی اسی جذبہ و ولولہ اور محبت و اخلاص سے قربانی کرنی چاہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہمیں یہی حکم دیا ہے۔ فرمایا:۔
لَن يَنَالَ اللّٰهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَـٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ ۗ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ
یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں قربانیوں کا گوشت اور ان کا خون نہیں بیچتا۔ لیکن اس کے ہاں تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ اسی طرح اس نے ان جانوروں کو تمہارے لئے مسخر کر دیا تاکہ تم ان کو اللہ کی راہ میں قربانی کر کے اس بات پر اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں قربانی کی توفیق دی اور (اے میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم ) اخلاص سے قربانی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے۔
اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قربانیوں کی کوئی چیز ہمیں نہیں پہنچتی صرف تقویٰ پہنچتا ہے۔ تقویٰ کا معنی ہے خدا کی ناراضگی سے بچنا اور دور رہنا۔ خدا تعالیٰ کی ناراضگی دو چیزوں سے ہوتی ہے۔
۱۔ خدا کا امر ترک کرنے سے جیسے ابلیس علیہ اللعنۃ نے خدا کا امر ترک کیا تو خدا ناراض ہو گیا۔
۲۔ نہی میں یعنی منہیات میں واقع ہونے سے جیسے آدم نہی میں واقع ہوئے تو اللہ تعالیٰ ناراض ہو گئے۔
اس آیت میں تقویٰ سے مراد امر بجا لانا اور اخلاص و محبت سے تابعداری کرنا ہے۔ قربانی سے غرض اللہ تعالیٰ کا ہماری محبت اور تابعداری کی آزمائش کرنا ہے نہ گوشت اور خون۔ سو جس کی اللہ تعالیٰ سے سچی دوستی اور پوری محبت ہو گی وہ خدا کا پورا تابعدار ہو گا۔ قربانی بھی کرے گا او دیگر جملہ امور بھی بجا لائے گا۔
قربانی کا ایک اور فلسفہ:
جس قوم میں جانی مالی قربانی کا جذبہ اور مادہ نہ ہو وہ فاتحِ دنیا اور راہنمائے وقت نہیں ہو سکتی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو قربانی کی عادت ڈالی۔ فرصت کی کمی مانع ہے ورنہ زیادہ مفصل لکھتا۔