کتاب: محدث شمارہ 2 - صفحہ 29
بڑھے ہوئے تھے۔ ان کا امتحان بھی سخت ہوا، یعنی ہم سے اللہ تعالیٰ نے حیوان کی قربانی طلب کی اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے لخت جگر (بیٹے) کی قربانی مانگی کیونکہ ان کی خد دوستی اور محبت کے مقابلہ میں دنیا اور اس کی کوئی چیز حقیقت نہ رکھتی تھی۔ قرآن پاک نے اس کا نقشہ یوں کھینچا ہے۔
فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَىٰ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَىٰ ۚ قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللّٰهُ مِنَ الصَّابِرِينَ ﴿١٠٢﴾فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ ﴿١٠٣﴾ وَنَادَيْنَاهُ أَن يَا إِبْرَاهِيمُ ﴿١٠٤﴾ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا ۚ إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ﴿١٠٥﴾ إِنَّ هَـٰذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ ﴿١٠٦﴾ وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ[1]
ابراہیم علیہ السلام جب ہجرت کر کے شام پہنچے تو اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا اللہ مجھے ایک صالح فرزند عنایت فرما۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک حلیم الطبع لڑکے کی بشارت دی تھی جو پوری ہوئی اور جب وہ لڑکا ایسی عمر کو پہنچا کہ ان کے ہمراہ کاروبار میں مدد کے لئے آنے جانے لگا تو ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ: برخوردار میں دیکھتا ہوں کہ میں تم کو (بامرِ الٰہی) ذبح کر رہا ہوں ۔ اب تم بتاؤ کہ تمہاری کیا رائے ہے۔ وہ بولے ابا جان! امر الٰہی بجا لانے میں مشورہ کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کو جو امر ہوا ہے بلا تامل پورا کر دیجئے۔ انشا اللہ آپ مجھ کو صابرین سے پائیں گے۔ جب دونوں نے خدا کے حکم کو تسلیم کر لیا اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا دیا اور ذبح کر دیا تو ہم نے پکارا کہ اے ابراہیم! تو نے خواب کو خوب سچا کر دکھایا۔ ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں ، یعنی ان کی صدق دلی نیک نیتی اور اخلاص دیکھ کر ان کو نقصان سے بچا لیتے ہیں جیسے یہاں اسماعیل کی جان بھی بچا دی اور امتحان بھی لے لیا اور ان کی بجائے قربانی کیلئے دنبہ بھیج دیا۔
باپ بیٹے کا یہ کٹھن امتحان اور بہت مشکل گھڑی تھی جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے حل ہو گئی اور یہ ابراہیم علیہ السلام و اسماعیل علیہ السلام کا ہی مقام محبت اور درجۂ خلت تھا کہ وہ اس سخت ترین آزمائش میں بھی کامیاب ہو گئے اور قربانی
[1] سورۃ الصافات