کتاب: محدث شمارہ 2 - صفحہ 28
مجنوں ہو رہی ہے اور اس کی تحصیل کے لئے بڑے بڑے عظیم مصائب و آلام برداشت کر رہی ہے۔
دوسری طرف انسان کا اپنے اور ساری کائنات کے موجد اور خالق و مالک سے محبت کرنا اور اس کی جستجو میں متغرق ہونا بھی انسان کا فطری امر ہے۔
ایسا خوش قسمت کون ہے جو اس میں کامیابی حاصل کرے اور اس عالم دیدہ کو چھوڑ کر اور اس کی لذات کو پس پشت ڈل کر عالم شنیدہ (آخرت) اور ذاتِ غائب غیر دیدہ پر قطعی یقینی ایمان لائے اور اس پر فدا اور فریفتہ ہو کر اس کی جستجو کرے اور اس کی رضا کے لئے مرغوبات اور لذات کوفدا کر دے۔
ایسا کرنا بداہت کے خلاف ہے جیسا کہ مشہور ہے:
شنیدہ کے بود مانند دیدہ!
یعنی شنیدہ دیدہ کے برابر نہیں ہو سکتا یعنی سی سنائی چیز دیکھی چیز کے برابر نہیں ہوتی۔
بس یہ مومن کا ہی مقام ہے کہ غائب خدا پر جو بظاہر شیدہ اور غائب ہے اور اپنی صنعتوں اور قدرتوں سے دیدہ سے بھی ظاہر ہے، پختہ ایمان لا کر اس عالم دیدہ کو اس پر فدا کرتا ہے اور اس کی جستجو اور رضا حاصل کرنے میں ساری عمر اور پوری ہمت صرف کر کے اعتراف کرتا ہے۔
ما عبدنا حق عبادتک وما عرفنا حق معرفتک۔
یعنی ہم نے تیری کما حقہٗ عبادت نہیں کی اور نہ ہی ہم نے تجھے کما حقہٗ پہچانا ہے۔
اور ایثار و قربانی اور محبت و مودت اور شیدائیت و فدائیت کی وہ بے نظیر مثالیں پیش کیں کہ دیا اس کا نمونہ پیش کرنے سے عاجز ہے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام ذبیح کی قربانی اس کا زندہ ثبوت ہے اور صحابہ کا زندہ اور سیرت بین دلیل ہے۔
پس قربانی کی غرض شکم پرستی اور گوشت خوری نہ ہوئی بلکہ مومن کے تعلق باللہ، محبت و ایثار اور شیدائیت و فدائیت کا امتحان ہوا۔
پس اس میں بھی مومنین کے مختلف درجات ہیں جتنی کسی کی محبت اور دوستی زیادہ مضبوط ہو گی اتنا ہی اس کا امتحان اور قربانی سخت ہو گی۔ چنانچہ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام مقامِ خلت و محبت میں سب سے