کتاب: محدث شمارہ 2 - صفحہ 26
الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللّٰهَ عَهِدَ إِلَيْنَا أَلَّا نُؤْمِنَ لِرَسُولٍ حَتَّىٰ يَأْتِيَنَا بِقُرْبَانٍ تَأْكُلُهُ النَّارُ[1]
یہودیوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے عہد کیا ہے کہ ہم کسی رسول پر ایمان نہ لائیں تاوقتیکہ وہ رسول قربانی دے اور اس کو آسمان سے آگ آکر نہ کھا جائے۔
معلوم ہوا کہ ان کی قربانیوں کو آگ آکر جلایا کرتی تھی اور وہ کھایا نہیں کرتے تھے۔
اسی طرح ہابیل اور قابیل کے قصہ میں جامع البیان میں لکھا ہے:
فقرب ھابیل خیر غنمہ وقرب الاٰخر ابغض زرعہ فجائت نار من السمائ واکلت الشاۃ وترکت الزرع وکان ھذا علامۃ القبول والرد۔ [2]
یعنی ہابیل نے بہتر دنبہ یا بکری قربانی دی اور قابیل نے روی جنس جَو وغیرہ قربانی دیئے۔ آسمان سے آگ آئی۔ ہابیل کی قربانی کو جلا گئی اور قابیل کے جَو چھوڑ گئی اور یہ آگ کا آسمان سے آکر قرانی کو جلانا قربانی کے قبول و عدم قبول کی علامت تھی۔
پس معلوم ہوا کہ قربانی کی غرض گوشت خور ہی نہیں ۔ نیز اگر گوشت خوری مقصود ہوتی تو اسماعیل کی قربانی کا حکم نہ ہوتا کیونکہ انسان کا گوشت ہر شریعت میں حرام رہا ہے۔ پس قربانی کی غرض گوشت خوری نہیں بلکہ کوئی اور امرِ عظیم اس کی غرض ہے۔
وہ اس طر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عالم دیا کو ایک عجیب دلآویزی اور دلربائی بخشی ہے اور اس کو طرح طرح سے مزین کیا ہے اور گوناں گو نعمتوں سے بھر دیا ہے اور ایسے باغ و بہار خوش دید اور ثمراتِ لذیذ سے سجایا ہے کہ انسان کا دل ان کی دید سے فرحت اور مسرت پاتا ہے اور ثمرات سے شاد کام ہو جاتا ہے۔ ان کی لذت اور شیرینی کو کبھی فراموش نہیں کرتا اور ہمیشہ ان کامتمنی رہتا ہے اور ایسی خو شکل آراستہ پیراستہ عورتیں پیدا کیں جن کی دید سے انسان حواس باختہ اور دل پرداختہ ہو جاتا ہے۔ اور خوب صورت
[1] آل عمران
[2] جامع البیان :97