کتاب: محدث شمارہ 2 - صفحہ 25
تکبیریں کہتے۔
راقم کہتا ہے کہ ایسے لوگوں کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔
رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللّٰهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ
یعنی ان کو اللہ کے ذکر نماز و زکوٰۃ سے کوئی چیز غافل نہیں کرتی تھی۔ خرید و فروخت بھی ان کو غافل نہیں کرتی تھی۔ [1]
ان لوگوں کی کیا ہی شانِ عالی ہے اور عجیب ہی خدا دوستی ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ منیٰ میں اپنے خیمہ میں اس زور سے تکبیریں کہتے کہ مسجد والے اور بازار والے سنتے اور سب تکبیریں کہتے حتیٰ کہ میدانِ منی تکبیروں کی آوازوں سے گونج اُٹھتا۔ یہ ہے صحابہ کا حال کہ انہوں نے خانہ اور ویرانہ میں خدائی بڑائی کے نعرے لگائے اور زمیں کے چپے چپے کو اس کی بزرگی اور عظمت سے روشناس کرا دیا۔
اس عشرہ کے اعمال صالحہ سے قربانی ایک بے نظیر و بے مثال عمل ہے جو دوسرے ایام میں ہرگز نہیں کیا جا سکتا لہٰذا اس کے متعلق بھی کچھ عر کرنا وقت کا تقاضا اور ضروری امر ہے۔
قربانی کی حیثیت اور عظمت اسلام میں بہت ہے اور یہ وہ عبادت ہے جو ہر امت میں مختلف صورتوں میں جاری رہی ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا[2]
یعنی ہم نے ہر امت کے لئے قربانی بنائی۔
اس کی ابتداء آدم علیہ السلام سے شروع ہوئی جیسا کہ قرآن مجید میں ہابیل اور قابیل کے واقعہ سے ظاہر ہے۔
إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ[3]
یعنی جب قربانی دی ان دونوں نے پس ایک (ہابیل) کی مقبول ہوئی اور دوسرے کی مقبول نہ ہوئی۔ قربانی سے غرض گوشت خوری نہیں ۔ اگر گوشت خوری مقصود ہوتا تو پہلی امتوں پر قربانی کا گوشت کھانا حرام نہ ہوتا اور اس کو آسمان سے آکر آگ نہ جلاتی۔ آگ کا آسمان سے آکر ان کی قربانیوں کو جلانا قرآنِ مجید میں صراحۃً مذکور ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے:
[1] سورۃ النور :37
[2] سورۃ الحج :34
[3] سورۃ مائدہ : 27