کتاب: محدث شمارہ 2 - صفحہ 20
یعنی یاد کریں اللہ تعالیٰ کا نام معلوم دنوں میں ۔ معلوم دنوں سے مراد عشرہ ذی الحجہ ہے جیسا کہ بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ پس قرآن مجید سے اس عشرہ کی عظمت اور بزرگی ثابت ہوئی اور اس میں کثرتِ ذکر و عبادت کی ترغیب بھی ثابت ہوئی۔ اور فریضہ حج جو ارکانِ خمسہ میں داخل ہے اور بے انتہائی محاسن و فضائل کا حامل ہے۔ یہ بھی اسی عشرہ میں ادا کیا جاتا ہے۔ یہ بھی اس کی فضیلت پر دال ہے۔ اور قربانی جو حب خلیل علیہ السلام کی یادگار اور خالق پر مخلوق کے ایثار اور جاں فشانی کی بے مثال دلیل ہے۔ اسی عشرہ میں کی جاتی ہے۔ یہ بھی اس عشرہ کی فضیلت کی دلیل ہے۔ پہلی حدیث:۔ بخاری شریف میں ہے: عن ابن عباس قال قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ما من ایام ۔۔۔۔ العمل الصالح فیھن احب الی اللّٰه ۔۔۔۔ من ھذہ الایام العشرۃ، قالوا: یا رسول اللّٰه ولا الجھاد فی سبیل اللّٰه؟ قال: ولا الجھاد فی سبیل اللّٰه الا رجل خرج بنفسہ وما لہ فلم یرجع من ذلک بشیٔ (رواہ البخاری) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دس دنوں کے اعمال صالحہ جتنے اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں اتنے اور دِنوں کے نہیں یعنی ان دنوں کے اعمال نماز روزہ، تسبیح، تہلیل، تکبیر اور صدقہ خیرات وغیرہ اللہ عزوجل کو بہت ہی محبوب ہیں لہٰذا ان دنوں میں بندگی و عبادت میں زیادہ کوشش کرنی چاہئے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ جہاد بھی ان دنوں کے اعمال صالحہ کے برابر نہیں ہوتا؟ فرمایا: جہاد بھی برابر نہیں ہو سکتا۔ ہاں وہ مجاہد جو جان مال لے کر جہاد کے لئے نکلے اور پھر کوئی چیز واپس نہ لائے