کتاب: محدث شمارہ 2 - صفحہ 17
ہو اور آنحضرت ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے اس پر انکار ثابت نہ ہو تقریر حکمی ہے اور ایسی بات صحابہ رضی اللہ عنہم میں حجت سمجھی جاتی تھی جس پر قول صحابی ’’کنا نعزل والقراٰن ینزل‘‘ شاہد ہے۔ اسی شبہ کا ازالہ کرتے ہوئے صاحبِ سبل السلام نے دوسری حدیث کے تحت لکھا ہے: ’’الحدیث دلیل علی صحۃ السَلَفِ فی المعدوم حال عقد اذلو کان من شرطہ وجود المسلم فیہ لاستفصلوھم وقد قال ما کنا نسالھم وترک الاستفصال فی مقام الاحتمال ینزل منزلۃ العموم فی المقال‘‘ پھر آگے چل کر پہلی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’واحسن منہ فی الاستدلال انہ صلی اللّٰه علیہ وسلم اقرّ أھل المدینۃ علی السلم سۃ وسنتین والرطب ینقطع فی ذالک‘‘ اسی طرح علامہ شوکانی رحمہ اللہ حدیث لا تبع ما لیس عندک کے تحت لکھتے ہیں : ’’قال البغوی: النہی فی ھذا الحدیث عن بیوع الاعیان التی لا یملکما اما بیع شیٔ موصوف فی ذمتہ فیجوز فیہ السلم بشروطہ فلو باع شیئا موصوفانی ذمتہ عام الوجود عند المحل المشروط فی البیع جاز وان لم یکن المبیع موجودانی ملکہ حالۃ العقد‘‘ یہ یاد رہے کہ ائمہ سنت میں سے کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں ہے کہ بیع سلم میں مسلم فیہ جنس کا بوقت عقد بائع کے پاس ہونا شرط ہے۔ البتہ فقہا حنفیہ کے نزدیک زمان عقد میں بازار میں موجود ہونا شرط ہے۔ بائع کے پاس ہونے کی وہ بھی شرط نہیں کرتے اور ونوں مذکورہ بالا حدیثیں اس مسلک کے بھی خلاف ہیں ۔ ہاں بیع سلم کے بارہ میں کچھ مزید شرعی پابندیاں ہیں ۔ مسلم فیہ چیز جب تک قبضہ میں نہ لی جائے۔ دوسرے شخص کے پاس فروخت نہیں کی جا سکتی جیسا کہ سنن ابی داؤد اور ابن ماجہ میں ہے: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم من اسلم فی شی فلا یصرفہ