کتاب: محدث شمارہ 2 - صفحہ 16
مع رسول اللّٰه وکان یاتینا انباط من انباط الشام ننسلفہم فی الحنطۃ والشعیر والذبیب الی اجل مسمّٰی، قیل: اکان لھم زرع، قالا: ما کنا نسألھم عن ذالک۔ یعنی ہم لوگ آنحضرت ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے سات غنائم کے مال حاصل کرتے اور شام میں رہنے والے نبطیوں [1] کے ساتھ اجناس گندم جَو وغیرہ سے بیع سلم کیا کرتے تھے جس میں ایک میعاد مقرر ہو جاتی تھی۔ ان دونوں سے پوچھا گیا کہ جن نبطیوں کے ساتھ تم بیع سلم کیا کرتے تھے، کیا ان کی اپنی کھیتیاں ہوتی تھیں ، جواب میں کہا ہم یہ بات ان سے نہ پوچھا کرتے تھے۔ شبہتہ: اگر کوئی شخص یہ شبہ پیش کر کہ یہ بیع معدوم کی ہے اور معدوم کی بیع سے حدیث میں ممانعت آئی ہے۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا تبع ما لیس عندک ازالۃ شبہہ: اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث لا تبع ما لیس عندک بیع حاضر (نقد) کے متعلق ہے۔ بیع سلم کے متعلق نہیں اور پہلی ذکر کردہ دونوں حدیثیں اِس بات پر دلالت کرتی ہیں کیونکہ پہلی حدیث میں دو دو سال کی بیع سلم کو بھی جائز رکھا ہے۔ صرف میعاد مقرر کرنا شرط فرمایا ہے اور ظاہر ہے کہ دو دو سال کے بعد واجب الادا چیز بیع کے وقت کب موجود ہوتی ہے۔ اسی طرح دوسری حدیث بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کیونکہ صحابہ رضی اللہ عنہم آنحضرت ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے زمانہ میں بیع سلم کرتے تھے اور یہ نہ پوچتے تھے کہ یہ چیز تمہارے پاس موجود ہے یا نہیں ؟ اگر بیع سلم میں عقد (بیع) کے وقت جنس کا موجود ہونا یا بائع کے قبضہ میں ہونا شرط ہوتا تو صحابہ رضی اللہ عنہم ایسی وضاحت طلب کئے بغیر سودا نہ کرتے اور اگر صحابہ کر بھی بیٹھتے تو آنحضرت ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اِن کو ایسا کرنے سے ضرور منع فرماتے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کا تعامل جو عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ثابت
[1] عجمی لوگ جو عراقین کے درمیان آباد ہوئے تھے ۔12