کتاب: محدث شمارہ 2 - صفحہ 11
سوشلزم لفظ کے معنی کون سے برے ہیں اس سے بھی تو اجتماعیت کا اظہار ہوتا ہے جس کی اہمیت اسلام کی نظر میں بہت ہے۔ لہٰذا ان لفظوں کے لغوی معنوں سے دوکا ہیں کھانا چاہئے بلکہ ابب یہ اصطلای نام ہیں جن سے خاص نظام مراد ہیں ۔ برائی تو اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اجتماعی حل کے لئے سوشلزم کا طریقۂ کار اختیار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح جب عوامی اقتدار کے نام پر جمہوریت کا طریقۂ کار اختیار کیا جاتا ہے تو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ۔ اس لئے نہ تو سوشلزم رنگین مساوات کے نام پر اسلام بن سکتا ہے اور نہ ہی جمہوریت کی (غیر محدود اور بدعنوانیوں کو دروازہ کھولنے والی) آزادی اِسے اسلام سے ہم آہنگ کر سکتی ہے۔ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ سوشلزم ایک منفی تحریک ہونے کی بناء پر ہر اس چیز کا خاتمہ کرتا ہے جو اس کے راستہ میں دیوار بن کر کھڑی ہو سکے۔ اِسی وجہ سے وہ مذہب و اخلاق کا براہِ راست دشمن ہے جبکہ جمہوریت مثبت انداز میں پھیلتی ہے اور اپنی حکمت عملی کی بناء پر براہِ راست مذہب سے ٹکر نہیں لیتی بلکہ اسے انسان کا پرائیویٹ معاملہ کہہ کر نظر انداز کرتی ہے۔ سوشلزم اور جمہوریت کا قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں بے خدا مادی نظریے ہیں ۔ اِس کے برکس مذہب اسلام خلافت کا نظریہ پیش کرتا ہے اور سیاست و معیشت دونوں کی اساس اسی نظریہ پر رکھتاہے جو انسانی ضروریات کو پورا کرنے اور مشکلات کو حل کرنے کے لئے ایک بہترین اعتدال کی راہ ہے جس میں جمہوریت کی آزادی سے بڑھ کر آزادی ہے لیکن یہ آزادی بدعنوانیوں کا دروازہ کھولنے کی بجاے ان کا سدِ باب کرتی ہے۔ اسی طرح اس میں سوشلزم کی مزعومہ مساوات سے بڑھ کر عملی عدل و مساوات ہے جو سوشلزم کی نسبت کمزور اور غریب کا زیادہ ہمدرد ہونے کی وجہ سے مفلوک الحالی کا بہترین حل اور خوشحالی کا واحد ضامن ہے لیکن سوشلزم کی طبقاتی جنگ اور تحفظ حقوق کے نام پر پامالی،، حقوق کا ایک مستقل فتہ اور عذاب بننے سے کوسوں دور امن و امان اور صلح و آشتی کا مثالی نمونہ پیش کرتا ہے کیوں نہ ہو اسلام کا تو مصدر و ماخذ ہی سلم (سلامتی) ہے۔ ہم اس استدلالی بحث کو کسی دوسرے وقت پر ملتوی کرتے ہیں ۔ اس مختصر سے بیان سے ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ اسلام پسند اگر اسلام کا نعرہ لگاتے ہیں تو صحیح اسلام پیش کریں ۔ یہ نہ ہو کہ سب کچھ اسلام کے لے کرنے کے بعد منزل اس سے ہٹ کر مغرب ہو یا مشرق۔