کتاب: محدث شمارہ 2 - صفحہ 10
لیکن خدائی قانون (اسلام) کا یہ اعجاز ہے کہ یہ اصول اتنے قدیم ہونے کے باوجود اتنے جدید اور ترقی یافتہ بھی ہیں کہ کسی بھی ترقی یافتہ دور میں کوئی انسانی قانون ترقی یافتگی میں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ گویا ہ اسلام ہی ایسا بے مثال اور مکمل ضابطۂ حیات ہے جو زمان و مکان کی قیود سے پاک ہے اور خدائی طریقۂ زندگی ہونے کی وجہ سے اپنے اندر اتنی وسعت رکھتا ہے کہ تاقیامت امن و امان کا واحد ضامن اور انسانی مشکلات کا آخری حل ہے۔ جب کبھی دوسرے ترقی یافتہ ناموں کو اس میں شامل کر کے اس میں جدت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تو اس سے نقصان ہی ہوا اور غیر اسلامی چیزوں کو اسلام کے نام پر قبول کر لیا گیا۔ اسلام میں جو بڑے بڑے فتنے پیدا ہوئے اور غیر اسلامی نظریات اختیار کئے گئے اس کا سبب متجد دین (ترقی پسندوں ) کا اِسی قسم کا تاثر ہوا جو انہوں نے اسلام سمجھ کر قبول کر لیا۔ اگر سوشلزم کے ساتھ اسلامی کا لفظ لگانا یا اس کا نام اسلامی مساوات رکھنا حامیانِ اسلام کو گوارا نہیں تو بڑا تعجب ہوتا ہے کہ یہ لوگ جمہوریت کے ساتھ اسلام کا لفظ لگا کر اسے اسلامی کیوں قرار دیتے ہیں ؟ اگر کوئی کہے کہ سوشلزم صرف معاشی نظام نہیں بلکہ ایک مکمل مذہب ہے جس کا باعث صرف معاشی محرکات ہوئے ہیں اور جن اصولوں پر اس کا نظام معیشت استوار ہے، انہی اصولوں پر باقی سارا نظام قائم ہے تو ہم کہیں گے کہ جمہوریت بھی ایک مکمل مذہب ہے صرف اس کا محرک آمریت کے مقابلہ میں ایک سیاسی نظام ہے اور اس کے جن اصولوں پر سیاسی نظام کی بنیاد ہے اسی پر باقی سارے نظام کا انحصار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام حامیانِ جمہوریت کا لازمہ سمجھا جاتا ہے۔ انتخابی مہم میں یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ جمہوریت کے حامی اسلام پسندوں نے انتہائی کوشش کی کہ کسی طرح ہم غریب مزدور اور کسان کو یہ یقین دِلا دیں کہ ہم سرمایہ داری کے خلاف ہیں اور اسلامی نظام کے حامی ہیں لیکن ان کی اس بات پر کان نہ دھرا گیا کیونکہ سرمایہ داریت جمہوریت کے لوازمات سے ہے اور یہ دونوں ایک ہی ذہن کی پیداوار ہیں ۔ جن لوگوں نے اسلامی جمہوریت اور مغربی جمہوریت کہہ کر فرق کرنا چاہا وہ بھی اسے واضح نہ کر سکے۔ اس لئے کہ اسلام اور جمہوریت دو الگ نظام ہیں ۔ کوے کو مور کے پر لگانے سے وہ مور نہیں بن سکتا۔ اگر جمہوریت لفظ کے معنی اچھے ہیں جس سے عوامی اقتدار اور آزادی کا اظہار ہوتا ہے تو