کتاب: محدث شمارہ 19 - صفحہ 9
بر سر اقتدار آنے کے بعد انہوں نے صرف دو کام کیے ہیں ایک ذاتی دکھ اور ذاتی انتقام کی پیاس بجھائی ہے اور اس کم ظرفی میں اتنے دور نکل گئے ہیں کہ دل جیتنے کی بجائے ذاتیات میں ملوث پائے گئے ہیں جس کی وجہ سے بالواسطہ طور پر صدر موصوف کی ذاتِ گرامی بھی زیرِ بحث آجاتی ہے۔ دوسرا مکروہ کام جو انہوں نے کیا ہے وہ ایک نجی ملازم کی طرح در موصوف کی چاکری ہے۔ ان دو کاموں سے ماسوا اگر انہوں نے کچھ کیا ہو تو اسے منظر عام پر لایا جائے۔ صدر موصوف نے بض وزیروں کا انتخاب اپنے خصوصی مصالح اور وزیر موصوف کی کسی خاص ذاتی کمزوری کے پیش نظر کیا ہے اور بعض کو محض شکار کرنے کے لئے رکھا ہوا ہے۔ کچھ کا تو یہ حال ہے کہ وہ مزدوروں کا شکار کرتے ہیں ۔ بعض علماء سوء اور پیرانِ سالوس پر ڈورے ڈالنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور کچھ وہ ہیں جو عوام کی دین پسندی کا استحصال کرنے میں مہارتِ تامّہ رکھتے ہیں ۔ الغرض ان میں اکثریت ان وزراء کی ہے جن کو ملک میں اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا۔ اگر کبھی وقت ملا تو ہم بعض وزیروں کی کارستانیوں کی تفصیلات سے صدر اور قوم کو آگاہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ (3) ڈیرہ غازی خان سے قومی اسمبلی کے ممبر اور جماعتِ اسلامی کے راہنما ڈاکٹر نذیر احمد کو کسی بد نصیب اور شقی القلب نے شہید کر ڈالا ہے اور اس سلسلہ میں مقامی پولیس اور حکومت نے جو طرزِ عمل اختیار کیا ہے، اس سے عوام کے دلوں میں مختلف قسم کے شکوک و شبہات پیدا ہونے قدرتی بات ہے۔ پیپلز پارٹی کے بر سرِ اقتدار آنے پر سماج دشمن عناصر کے جس طرح حوصلے بلند ہوئے ہیں اور وہ جو نہ کر دنیاں کر گزرے ہیں ان سب کا کریڈٹ پیپلز پارٹی کو مل سکتا ہے اور ملنا چاہئے۔ ڈاکٹر نذیر احمد شہید ہر دل عزیز لیڈر، مخلص رہنما، بے داغ داعی اور اَن تھک مجاہد انسان تھے۔ اس لئے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ یہ قتل کسی ذاتی رنجش کا نتیجہ ہو۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے تو پھر کیا ہے؟ اس پر ہم اس کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ ؎ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟ اس سانحہ کا سب سے زیادہ مایوس کن پہلو یہ ہے کہ ابھی تک اس معمہ کو حل کرنے میں حکومت ناکام رہی ہے۔ بہرحال اس قسم کی دھاندلیوں کے بعد عوام میں بڑی بے چینی پائی جاتی ہے اور ان سے