کتاب: محدث شمارہ 19 - صفحہ 8
جائزے (1) سندھ میں زبان کا جھگڑا اٹھا، کہتے ہیں جنہوں نے یہ فتنہ کھڑا کیا تھا، انہوں نے ہی بالآخر اسے دبایا بھی۔ بہرحال محرک اس کا کچھ ہو اور کوئی ہو، یہ ایک المیہ ہے کہ جب تک ملک کی سرکاری زبان انگریزی رہی کوئی نہیں بولا، جب ملک کی ایک زبان کا مرحلہ آیا تو چیخیں نکل گئیں ۔ خوب! زبان کا دائرہ جتنا وسیع ہتا ہے اتنا ہی قومی وحدت کا دائرہ وسیع ہوتا ہے اور ملک کے اندر زبانوں کی جتنی اکائیاں چالو ہوتی ہیں ملکی اتحاد اتنی ہی اکائیوں میں منقسم ہو جاتا ہے جس کے نتائج انتشار اور شکایتوں کی شکل میں ظاہر ہوتے رہتے ہیں ۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا نظریہ ہے کہ مقامی زبان کو حرام اور شجرِ ممنوع قرار دیئے بغیر ملک کی سرکاری زبان بہرحال عربی ہونی چاہئے۔ امام صاحب نے بجا فرمایا ہے۔ یہ ہماری روایات کی امین بھی ہے اور کتاب و رسول کی زبان بھی۔ اگر ہم نے ان کے نام پر نسلی رشتوں کی قربانی دی ہے تو ان کی خاطر اپنی زبان کی قربانی دینے میں کیا شے مانع ہے؟ دراصل جو لوگ اپنی علاقائی زبانوں پر مصر ہیں وہ دراصل اپنی اس جاہلی تہذیب و تمدن کا تحفظ چاہتے ہیں جس کو انہوں نے محض اللہ اور رسول کی خاطر چھوڑا تھا یا یہ کہ قرآن و حدیث سے مناسبت حاصل کرنے کے لئے ان کے دلوں میں کوئی تڑپ موجود نہیں ہے۔ عربی نہ سہی، بہرحال اردو بالکل غیر علاقائی زبان ہے جو بین الاقوامی شہرت حاصل کر رہی ہے۔ جس میں اسلامیات کا محیّر العقول خزانہ محفوظ ہو گیا ہے۔ مگر نادان دوستوں کے ہاتھوں اس کا متقبل تاریک ہونے کو ہے۔ ہم سوچتے ہیں یہ لوگ ابھی لیڈر ہیں ۔ عوام ہوتے تو خدا جانے کیا کیا گل کھلاتے اور کیا کیا ستم ڈھاتے؟ (2) ایک عام شکایت ہے کہ صدر بھٹو کے وزیروں کی ٹیم ملک کے شایانِ شان نہیں ہے اور ملک کو جن مشکلات کا سامنا ہے ان کے سلسلے میں شاید ہی کوئی دکھ کی دوا بن سکے۔ عوامی ایک بھی نہیں ، عامی تقریباً سارے ہیں ۔ ملک کی خدمت کم کرتے ہیں ۔ صدر موصوف کی خوشامد زیادہ۔ گویا کہ یہ ان کے خصوصی دعا گوؤں کی ایک جماعت ہے جو مسٹر بھٹو کے بحرِ بے کنار کی ذاتی موجیں ہیں ۔ کچھ لوگوں کو یہ بھی کہتے سنا ہے کہ ان کی اکثریت سفارش اور منت سماجت کے ذریعے لیلائے وزارت تک پہنچی ہے۔ اس لئے یہ لوگ ’’جی حضوری‘‘ زیادہ ہیں ۔ دیدہ ور مشیر کم۔