کتاب: محدث شمارہ 19 - صفحہ 7
رکھتی ہے اور وزن محسوس کرتی ہے۔
ہمارے بنیادی مسائل، جنگی قیدیوں اور شہری نظر بندوں کی رہائی، مسئلہ کشمیر اور مشرقی پاکستان میں بھارت کی جارحیت کے خلاف احتجاج تھا مگر ان کو جوں کا توں رکھنے کے بعد آکر سمجھوتوں کی ’’عیدی‘‘ منانا تھوڑے ہی ظرف کی بات ہے۔ گویا کہ اب آپ نے مغربی پاکستان کی سرحدوں پر خلاصی پانے کے لئے ایک گونہ بے چین بے تابی کا مظاہرہ کیا ہے جو کچھ زیادہ خوش آئندہ بات محسوس نہیں ہوتی۔ ہم سے تو عرب ہی بہتر رہے جو ہزار مجبوریوں کے باوجود برسوں سے قومِ یہود کے ساتھ ایک میز پر بیٹھ کر بات کرنے کو اپنے لئے بے عزتی اور بے غیرتی تصور کرتے آرہے ہیں مگر آہ! ہزار سال تک لڑنے والا جواں سال صدر چند ماہ بھی ’’خوابِ وصال‘‘ کا انتظار نہ کر سکا۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ سمجھوتہ بالکل صفر رہا ہے۔ گزارش یہ ہے کہ مقام مقامِ عزیمت نہیں رہا۔ آپ کہیں گے کہ مقابلہ کی تاب و تواں نہیں تھی۔ ہم کہتے ہیں کہ یہی آپ کی بھول ہے، مقابلہ کی تاب و تواں کیا، آپ بذاتِ خود بہت بڑی ’’تاب و تواں ‘‘ ہیں ۔ مشکل یہ ہے کہ آپ خود تاب و تواں نہیں رہے اور جتنی باقی ہے اس کو مصلحت کوشیوں کے ہاتھوں بیچے جا رہے ہیں ۔ علاج روگ کا کیجئے۔ لیکن آپ کا یہ ہومیو پیتھی علاج کہ علاج بالمثل چاہئے۔ آپ کو یہاں کام نہیں دے گا۔
اس سمجھوتہ کا تاریک ترین پہلو یہ ہے کہ بھارت کو ’’کہہ مکرنی‘‘ کا ڈھنگ خوب آتا ہے اور وہ اس سلسلہ میں بے شرمی کی حد تک ڈھیٹ ہے۔ مسئلہ کشمیر خود ہی اقوام متحدہ میں لے گیا تھا۔ لیکن بعد میں تاویلوں اور کہہ مکرنیوں کا جو ریکارڈ اُس نے قائم کیا ہے وہ کسی س پوشیدہ نہیں ہے۔
صدر بھٹو کو چاہئے کہ اب اندرونِ ملک ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی رِیت کا کوئی توڑ مہیا کریں تاکہ قوم کو اعداء اللہ کے سامنے ’’سیسہ پلائی‘‘ دیوار ثابت کیا جا سکے۔ اور کردار میں ملّی روایات کو دُھرایا جا سکے۔ بخدا! ہم اب نرے دنیا دار، ملک کے بہی خواہی کے مدعیوں سے مایوس ہو چکے ہیں ۔ یہ چکر باز لوگ ہیں ۔ انہوں نے پوری قوم کو چکروں میں لا کر تباہ کر ڈالا ہے۔ قوم کے لئے اب ان سے رہائی پانے کا کوئی نسخۂ شفا تشخیص کیجئے تاکہ قوم کو وہ رہنما پھر ہاتھ آجائیں جن کی زندگیاں قرآن و سنت کی غماز ہوں اور بھنور میں گھری ہوئی ملک کی نیا کو ساحلِ عافیت سے ہمکنار کر سکیں ۔ معاہدے بھی ان کے معاہدے ہوں گے، جنگ بھی ان کی جنگ ہو گی۔ باقی جو رہے، سراپا ضایع ضیاع ہی ضیاع ہے۔