کتاب: محدث شمارہ 19 - صفحہ 6
یعنی حق تعالیٰ کے اس فرمان کا راز یہ ہے کہ خطرات میں رہنا ہی فروغِ زندگی ہے۔ شریعت چاہتی ہے کہ جب آپ آمادۂ جنگ ہوں تو شعلہ ہو جائیے اور پتھر کو بھی دو نیم کر دیجئے۔ شریعت آپ کی قوتِ بازو کا آزماتی ہے۔ اس لئے وہ آپ کے سامنے الوند کا پہاڑ رکھ کر کہتی ہے کہ اس پہاڑ کو پیس کر سرمہ بنا دیں اور اپنی تلوار کے حرارت سے الوند کو پگھال کر رکھ دیں ۔ آپ حیران ہوں گے کہ بات معاہدہ کی ہے اور ہم نے پُر خطر مجاہدہ کا وعظ شریف شروع کر دیا ہے۔ آخر اس میں کیا تُک ہے! بات یہ ہے جیسا کہ ہم اوپر کی سطور میں لکھ چکے ہیں کہ اس معاہدہ اور سمجھوتہ پر برسرِ اقتدار پارٹی بالخصوص اور اس سے متاثر عوام کا ایک عنصر بالعموم جھوم اُٹھا ہے اور یوں جیسے: ؎ جان چھوٹی سو لاکھ پائے اور خود صدر بھٹو جو ہزار سال لڑنے کے بلند بانگ دعوے کرتے رہے ہیں وہ تھکے ہارے دکھائی دیتے ہیں اور ہر قیمت پر ’’حق و باطل‘‘ کی اس آویزش سے چھٹکارا حاصل کرنے کے موڈ میں ہیں ۔ ہمارے نزدیک یہ وہ بیمار ذہنیت ہے جو عموماً قوموں کو غلامی کے لئے سازگار غذا مہیا کرتی ہے۔ قوم کے فکر و عمل کی قوتوں کو زنگ کھا جاتا ہے، تخلیقی صلاحیتیوں سے محروم ہو رہتی ہے اور غیرت و حرارت کی ان اقدار سے دامن جھاڑ کر ذِلت پر قناعت کرنے لگ جاتی ہے جو اس کے مستقبل کی ضامن ہوتی ہیں ۔ ان اربابِ اقتدار نے قوم کو اغراض پرست بنا کر قوم کو بزدل بنا ڈالا ہے۔ اس کی تعمیر، سیرت اور کردار کے استحکام کی قطعاً کوئی فکر نہیں کی اور جو آتا ہے وہ اس میدان میں کھیلوں سے بازی لے جاتا ہے۔ اس پامال ڈگر پر نظرِ ثانی اور تنقیدی نگاہ کی توفیق نہیں پاتا۔ ہم چاہتے ہیں کہ اب یہ صورت بدل جانا چاہئے۔ قوم کو روٹی کپڑے تک اڑنا نہ سکھائیے۔ ان کو ملّی مزا میں پختہ اور فکر و عمل میں ایمان کے لحاظ سے معیاری انسان بنانے کی کوشش کی جائے۔ ان شاء اللہ اس کے بعد آپ ’’معاہدوں اور سمجھوتوں ‘‘ کی بھیک نہیں مانگیں گے۔ بلکہ خود ہی ان کی کھیر بانٹیں گے اور دنیا آپ کے معاہدوں پر فخر کرے گی۔ اس کے علاوہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے رب سے کچھ معاہدے کر رکھے ہیں لیکن ان کے سلسلہ میں غیر محتاط بلکہ طوطا چشمی کی حد تک ہم نے بے وفائی برتی ہے۔ اگر آپ ان کے سلسلہ میں سدا ایسے ہی رہے تو یقین کیجئے کہ دوسرے جو بھی معاہدے کریں گے۔ ان سے آپ بہ مشکل ہی متمتع ہوں گے۔ کیونکہ مسلم کہلاتے ہیں پر مسلم بنتے ہیں ، اس لئے آپ کے اندر وہ مثالی کردار اور شخصیت نہیں اُبھر رہی جس کی دنیا شرم