کتاب: محدث شمارہ 19 - صفحہ 5
’’سمجھوتہ‘‘ کو بخشش تصور کرنے کے بجائے مدّ مقابل کا وزن محسوس کرتے ہوئے اس کی ضرورت کا خود بھی معترف ہو۔ در نے یہ سمجھوتہ کر کے مصلحت کوشی کا تو درس ضرور دیا ہے، سخت کشی کا نہیں ۔ خاص کر وہ مصلحت پرستی جو خوف، ڈر اور احساس کمتری کی غماز ہو ہمارے لئے قوم کی خود کشی کے مترادف ہے۔ اقبال مرحوم نے پیامِ مشرق میں ایک کہانی لکھی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ: ایک ہرن نے دوسرے ہرن سے کہا کہ میں صیاد کے فتنوں اور تعاقب سے گھبرا گیا ہوں ۔ ہر گھڑی اور ہر آن یہ کھٹکا لگا رہتا ہے کہ کب کوئی شکاری آگھیرے، اس لئے میں تو ’’حرم‘‘ میں جا کر زندگی کی گھڑیاں گزاروں گا، کیونکہ وہاں شکار کرنا حرام ہے اس کے جواب میں دوسرے ہرن نے کہا: رفیقش گفت اے یار خرد مند اگر خواہی یات اندر خطر زی! کہ اے دانا! زندگی کا لطف چاہتے ہو تو پھر ’’خطرات‘‘ میں جینے کی کشش کرو۔ دماوم خوشیتن را برفساں زن! زتیغ پاک وہر تیز تر زن! اپنے آپ کو سنگ فسا (سان) پر مار اور جوہر دار تلوار کی طرح تیز دھار بن کر رہ۔ ایک اور مقام پر علامہ مرحوم لکھتے ہیں کہ: تو این جنگ از کنار عرصہ بینی بمیر اند نبرد و زندہ تر شو! تو (کار زار ہستی کی) یہ جنگ کنارے پر کڑا دیکھ رہا ہے۔ آ اور میدانِ جنگ میں مرکر زندہ تر ہو جا۔ میارا بزم بر ساحل کہ آنجا ہوائے زندگانی نرم خیز است بدر یا غلط و موجش ور آویز! حیاتِ جاوداں اندرستیزاست اپنی محفل ساحل پر نہ سجا کیونکہ اس جگہ زندگانی کی ہوا نہایت مدہم چلتی ہے بلکہ طوفان خیز دریا میں کود کر اس کی موجوں سے اُلجھ پڑ کیونکہ لازوال زندگی صرف حرب و ضرب میں (پوشیدہ) ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ ’’حکم ہے کہ اگردشمن صلح کے خیال سے بے فکر ہو جائے تو اس پر چڑھائی کرنا حرام ہے۔ کیوں ؟ سرِّ ایں فرمانِ حق دانی کہ چیست؟ زیستن اندر خطر ہا زندگیست سترع می خواہد کہ چوں آئی بجنگ شعلہ گردی واشگانی کام سنگ آزماید قوتِ بازوئے تو! مے نہدا لوند پیش روئے تو باز گوید سرمہ ساز الوندرا! ازتف خنجر گداز الوندرا!!