کتاب: محدث شمارہ 19 - صفحہ 4
٭ مواصلات، ڈاک و تار کی ترسیل اور دونوں ملکوں پر سے طیاروں کی پرواز کو دوبارہ شروع کرنے کے لئے اقدامات کیے جائیں گے۔ ٭ معاشی اور دوسرے شعبوں میں تعاون اور تجارت کو امکانی حد تک بحال کیا جائے گا۔ ٭ دونوں ملکوں کے شہریوں کو ایک دوسرے کے ملک میں آنے جانے کے لئے سفر کی سہولتیں دی جائیں گی۔ (نوائے وقت وغیرہ ۴/ جولائی) بعد میں قومی اسمبلی میں اس سمجھوتہ کی توثیق کی گئی مگر سنجیدہ سیاستدانوں نے اس کو کوئی اہمیت نہیں دی کیونکہ نیشنل اسمبلی میں صدر موصوف کی اپنی پارٹی کی اکثریت ہے جو بیگن کی نہیں صرف صدر بھٹو کی غلام ہے۔ اس میں ایسا عنصر بہت کم ہے جو صدر بھٹو کو مشورہ دینے کا حوصلہ اور اس کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ صدر بھٹو نے شملہ میں مسنہ اندرا گاندھی سے سمجھوتہ کیا اور اسلام آباد میں خود ہی قومی اسمبلی میں آکر اس کی توثیق بھی کر دی ہے۔ یقین کیجئے! پاکستان کی قومی اسمبلی کی یہ ذہنی ’’قینچی‘‘ بری طرح کھٹکتی ہے کیونکہ جمہوریت کی اوٹ اور اس کے نام پر ڈکٹیٹر شپ نافذ ہے اس لئے قومی اسمبلی کی طرف سے جو بھی فیصلے اور مباحث سامنے آتے ہیں ان کی افادی حیثیت کچھ یونی سی محسوس ہوتی ہے۔ الّا ماشاء اللہ۔ صدر بھٹو نے بر سر اقتدار آنے کے بعد، مختلف اوقات میں پاکستان کے مستقبل کے سلسلہ میں جو تقریریں کی ہیں یا بیان دیئے ہیں ، ان سے ہم نے شروع سے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ وہ اب اس موڈ میں ہیں کہ جو ہو سو ہو ہمیں بہرحال بھارت سے اپنے جھگڑوں کو ختم کرنا چاہئے اور جیسے بھی بن پڑے اسے راضی کر لینا چاہئے اس لئے جو کچھ ہو رہا ہے اسے غیر متوقع نہیں کہا جا سکتا اور نہ ہی اسے کچھ زیادہ باوقار اور سنجیدہ کوشش قرار دیا جا سکتا ہے۔ بس یوں سمجھئے کہ صدر موصف شہزادےہیں ۔ جان جوکھوں والی بات سے گھبراتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سستے چھوٹ جائیں لیکن انہیں کیا معلوم کہ ہماری تو اسی کشاکش میں گزری ہے۔ تن آسانی کی سوچ اور فرصت کہاں ؟ اے ذوقِ اذیت مجھے منجھدار میں لے چل ساحل سے کچھ اندازۂ طوفاں نہیں ہوتا ہمارے نزدیک یہ سمجھوتہ دراصل رزمگاہِ حیات کے پر خطر لمحات سے ایک گونہ ’’فرار‘‘ ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ صلح جوئی بری ہے بلکہ صلح وہ جو شایانِ شان ہوتی ہے جو ’’برابری کے تصور‘‘ پر مبنی ہو اور فریق ثانی