کتاب: محدث شمارہ 19 - صفحہ 39
’’بس اسلامی کلمے کا مقصد یہ تھا اور ہے کہ کہیں مسلمان بھی اممِ سابقہ کی طرح اپنے نبی کو معبود نہ بنا لیں ۔ یہ گویا توحیدِ خالص کا اعلان ہے۔ اس کا پڑھنے والا اعلان کرتا ہے کہ آج سے میں کسی غیر اللہ کی عبادت نہیں کروں گا۔ وہ علی الاعلان شہادت دیتا ہے کہ خدا کے علاوہ دنیا میں کوئی بڑی سے بڑی ہستی بھی لائقِ عبادت نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں ۔‘‘ دوسرے باب میں زیادہ تر عیسائی حضرات کے مضامین سے اقتباسات ہیں ۔ یہ اقتباسات معروف اور نامور شخصیت کے مضامین سے لئے گئے ہیں اور بعض لحاظ سے ان کی افادیت پہلے باب کے مضامین سے زیادہ ہے۔ تیسر باب کا عنوان ’’عقیدت کے موتی‘‘ ہے۔ اس باب میں غیر مسلم شعراء کا نعتیہ کلام ہے۔ اگر شاعر کا نام نہ دیا جائے تو یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ یہ اشعار کسی غیر مسلم کے ہو سکتے ہیں ۔ چند ایک شعر ملاحظہ ہوں : ؎ آدمیت کا غرض ساماں مہیا کر دیا اک عرب نے آدمی کا بول بالا کر دیا (ہری چند اختر) ؎ لطفِ خدائے پاک شفاعت کے بھیس میں فیضِ عمیم کا وہ اشارہ تمہیں تو ہو (عرش ملیانی) ؎ سلام اس پر جلائی شمع عرفاں جس نے سینوں میں کیا حق کے لئے بیتاب سجدوں کو جبینوں میں (جگن ناتھ آزادؔ) اغیار میں صرف ہندو، عیسائی اور چند سکھ دانشوروں کو ہی شامل کیا گیا ہے اور وہ بھی موجودہ صدی کے حالانکہ ورقہ بن نوفل، ابو سفیان (قبول اسلام سے قبل) اور ابو جہل اور اس کے بعد مختلف ادوار کے دوسرے لوگوں کی آراء تلاش کر کے کتاب کو زیادہ وقیع اور مفید بنایا جا سکتا تھا۔ اسی طرح یہودی اور عیسائی حضرات کی آسمانی کتب سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق حوالہ جات کا الگ باب باندھا جا سکتا تھا۔ مرتب نے مختلف کتب اور رسائل سے سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق مضامین اور اقتباسات کو جمع کر دیا ہے۔ حالانکہ مرتب کی ذمہ داری اس سے کچھ زیادہ ہوتی ہے۔ مثلاً جن اصحاب کے رشحاتِ قلم کو منتخب کیا گیا ہے، ان کا مختصر تعارف اور علمی یا سیاسی مقام، جن کتب یا رسائل سے مواد حاصل کیا گیا ہے ان کا حوالہ وغیرہ۔ یہ مضامین بہرحال غیر مسلموں کے ہیں ۔ لہٰذا بعض مقامات پر زبان و بیان کے لحاظ سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے ایسے مقامات پر فٹ نوٹ یا توضیح کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر