کتاب: محدث شمارہ 19 - صفحہ 32
نہایت خراب تھے تاہم ڈاکٹر عزام گیارہ گھنٹے کا سفر کر کے شہر اقبال میں وارد ہوئے، اقبال کے آثار دیکھے اور قبر پر حاضری دی پھر اقبال کو ان الفاظ میں منظوم خراجِ عقیدت پیش کیا:
عربی یھدی لروضک زھرا
جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک عرب آپ کے روضے کے لے چند پھول پیش کرتا ہے اور چونکہ یہ گلہائے عقیدت قرآن کی زبان میں ہیں ، اس لئے یہی حقیقی ’’ارمغانِ حجاز‘‘ ہیں ۔ انہیں قبول فرمائیے۔
کلامِ اقبال کے تراجم:
پاکستان میں بطورِ سفیر مقرر ہو کر آئے تو کلامِ اقبال کے ترجمے کا موقع ملا۔ ’’پیامِ مشرق‘‘ کا ترجمہ ’’رسالۃ الشرق‘‘ ۱۹۵۱ء میں شائع ہوا۔ پھر ’’ضربِ کلیم‘‘ کا ترجمہ ۱۹۵۳ء میں منصۂ شہود پر آیا۔ اگلے سال ۱۹۵۴ء میں ایک بہترین تخلیق ’’اقبال ان کی شاعری، زندگی اور فلسفہ‘ کے نام سے ترتیب دی۔ مثنوی اسرار و رموز کا ترجمہ ان کی وفات سے کچھ عرصہ پہلے اشاعت پذیر ہوا۔
ڈاکٹر عزام بے عالمِ عرب میں اقبال کے واحد ترجمان تو نہ تھے۔ البتہ پہلے ترجمان ضرور تھے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انہوں نے عمرِ عزیز کے آخری س سال افکارِ اقبال کی اشاعت میں گزارے۔ انہوں نے محبوب بیٹی ’’ہالہ‘‘ کو خطوط لکھے جن کا ایک حصہ چھپ چکا ہے۔ انہوں نے ’’ہالہ‘‘ کو ایسی خاتون بننے کی تلقین کی ہے جو اقبال کے مثالی وجود ’’مادراں را اسوۂ کامل بتول‘‘ کے نقشِ قدم پر چلے۔
ڈاکٹر اقبال کے کلام کو عربی زبان میں منتقل کرنے والوں میں عمر بہاء الامیری (شام) امیرہ نور الدین (عراق) صاوی شعلان (مصر) اور امین مصری (یمن) بھی شامل ہیں ۔
بغداد کی نوجوان شاعرہ امیرہ نور الدین نے زیادہ تر اقبال کی اردو نظموں کے ترجمے کیے ہیں اور اردو زبان کی جملہ باریکیوں کو ترجمے میں قائم رکھا ہے۔ امیرہ نور الدین فارسی زبان پر کامل عبور رکھتی ہے اور اردو سے بھی شناسا ہے۔ عزام بے فارسی سے آگاہ تھے اور انہوں نے شاہنامہ فردوسی کی تصحیح و تکمیل بھی کی تی مگر فارسی ان کی مادری زبان نہ تھی بلکہ علمی اور اکتسابی زبان تھی۔ امیرہ کے لئے فارسی بمنزلہ مادری زبان کے تھی۔ اسی لئے ڈاکٹر عزام کو احساس تھا کہ امیرہ نور الدین نے بعض قطعات اور اشعار کا ترجمہ اس احسن انداز سے کیا ہے کہ شاید وہ نہ کر سکیں ۔ چنانچہ مثنوی اسرار و رموز میں انہوں نے ’’سرِّ شہادت‘‘ اور ’’تذکرۂ بتول‘‘ کے اشعار اس لئے ہی چھوڑ دیئے تھے۔ ڈاکٹر عزام کے تراجم میں ’’مسجد قرطبہ‘‘ شاہکار ہے۔ انہوں نے ترجمے میں اصل